خیبر پختونخوا میں حقوق نسوان کا سب سے بڑا علمبردار سامنے آیا ہے۔ ضلع مردان کی یونین کونسل پلوڈھیری میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے والے اشفاق حسین نے اپنی دو بیویوں کو مختلف نشستوں پر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ دونوں کی کامیابی کیلئے سرتوڑ کوششیں بھی کر رہے ہیں۔اور اپنی جمع پونجی ان کی انتخابی مہم پر لٹارہے ہیں۔ اشفاق حسین کی ایک بیوی جنرل کونسلر کی نشست اور دوسری خواتین کی مخصوص نشست پر انتخاب لڑرہی ہیں۔ موصوف کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس کی دو ہی بیویاں اور تیرہ بچے ہیں۔ دونوں خواتین کی انتخابی مہم کے لیے جو پوسٹر چھاپے گئے ہیں ان میں انتخاب لڑنے والی خواتین کے نام اور تصاویر کے بجائے ان کے شوہر کی تصویر لگی ہے جس میں وہ ہاتھ اٹھاکر اپنی شرکائے حیات کی کامیابی کیلئے دست بہ دعا ہیں۔تاہم دونوں خواتین کی شناخت انتخابی نشانات کے ذریعے ہورہی ہے۔ایک خاتون کے پوسٹرمیں زوجہ اول اوردوسرے کے پوسٹر میں زوجہ دوئم لکھا گیا ہے۔اشفاق حسین گھر گھر اور گاؤں گاؤں جاکراپنی دونوں بیگمات کی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی دونوں بیویوں کو اس لیے انتخابی میدان میں اتارا کیونکہ خواتین ہی خواتین کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اورانہیں حل کرسکتی ہیں۔ خواتین جس سلیقے سے اپنا گھر چلاتی ہیں۔پورے علاقے کی ترقی اور بہتری کے لیے مردوں کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے کام کر سکتی ہیں۔اشفاق حسین کی کہانی ان ناقدین کا منہ بند کرنے کے لئے کافی ہے جو خیبر پختونخوا میں خواتین کو حقوق نہ دینے کا رونا روتے رہے ہیں۔اپنی دونوں بیویوں کو کارزار سیاست میں اتار کر ان کی انتخابی مہم چلانا اور گھر میں تیرہ بچوں کی دیکھ بھال اور گھر داری کا کام سنبھالنا دل گردے کا کام ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ یہ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا کی سرزمین بڑی مردم خیز ہے۔(یہاں مردم سے مراد مرد اور خواتین دونوں ہیں)اس مٹی میں پیدا ہونے والے مرداور خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی منوالیا ہے۔تعلیم، طب، سیاست، معیشت، کھیل،سپاہ گری،زمینداری اور گھر داری کے علاوہ امور خانہ داری میں بھی ہماری خواتین اپنی مثال آپ ہیں۔تعلیمی بورڈز کے گذشتہ دس سالوں کے نتائج اٹھاکردیکھ لیں ہمیشہ خواتین نے کلین سوئپ کیا ہے۔ ہماری حکومت بھی خواتین کوان کے تمام وراثتی، معاشرتی اور معاشی حقوق دلانے اورزندگی کے ہر شعبے میں لیول پلینگ فیلڈ فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے پالیسی سازمستقبل میں امور حکومت میں خواتین کو کم از کم ایک تہائی حصہ دینے کے لئے ہوم ورک میں مصروف ہوں۔یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ اسمبلی میں موجود خواتین اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے خود ہی کابینہ میں نمائندگی سے منع کررہی ہوں۔ورنہ خواتین اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ وزیرکیوں نہیں بن سکتیں۔وزیر کا سارا کام بھی تو انتظامی افسران کرتے ہیں۔اشفاق حسین کی حقوق نسواں کے لئے قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے برسبیل تذکرہ دیگر سیاسی اور غیر سیاسی خواتین کا حوالہ آگیا۔ حقوق نسواں کے علمبردار تمام مردوں کو اشفاق حسین کے عزم، جرات اور استقامت پر فخر ہے ہم سب کی دعائیں ہیں کہ ان کی کاوشیں ثمربار ثابت ہوں۔عورت فاؤنڈیشن سمیت خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی حقوق نسواں کے لئے مردوں کی ان گرانقدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایوارڈ دینا چاہئے۔تاکہ مستقبل میں بھی حقوق نسواں کے حوالے سے انفرادی کوششوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔