خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 17 اضلاع سے 37752 امیدوار 66 سٹی اور تحصیل کونسلوں اور 2382 ویلج اور نیبرہوڈ کونسلز کی مختلف نشستوں پر انتخابات لڑ رہے ہیں‘ ان میں 689 امیدوار مختلف سیاسی جماعتوں سے اور آزاد حیثیت میں سٹی کونسلز کے میئر اور تحصیل کونسلز کے چیئرمین شپ کیلئے میدان میں ہیں جبکہ مقامی سطح پر 19282 امیدوار جنرل کونسلز اور چیئرمین کے انتخاب کیلئے میدان میں ہیں۔ 3905 خواتین ویلج اور نیبر ہوڈ کونسلز میں خواتین نشستوں کی امیدوار ہیں جبکہ 7513 امیدوار کسان کونسلرز‘ 6081 نوجوان کونسلرز اور 282 اقلیتی کونسلرز کی نشستوں کیلئے میدان میں ہیں۔ پہلی مرتبہ نہ صرف قبائلی علاقوں میں جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں‘ انتخابات ہو رہے ہیں جبکہ یہ پہلی بار ہے کہ نچلی سطح پر امیدوار پارٹی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ پشاور کی ایک سٹی کونسل‘ چھ تحصیلوں اور 357ویلج اور نیبر ہوڈ کونسلوں میں امیدواروں کی انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں‘ ہر جگہ بینرز اور پوسٹر نظر آ رہے ہیں‘ بڑے بڑے بورڈز پر ووٹرز اور سپورٹرز نے اپنے من پسند لیڈروں اور امیدواروں کی تصاویر سجا رکھی ہیں۔ حجرے‘ ڈیرے اور بیٹھکیں سرشام سے ہی بھری ہوتی ہیں۔ چائے‘ قہوہ‘ کھانوں کے دور چلتے ہیں‘ امیدوار اپنے حامیوں کے ہمراہ نہ صرف جلسے کر رہے ہیں بلکہ گھر گھر اپنا پیغام اور منشور پہنچانے کے لئے ڈور ٹو ڈور مہم بھی تیزی سے جاری ہے‘ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نہ صرف کئی سیاسی رہنماؤں کو نوٹس جاری کئے ہیں‘ انہیں تنبیہ کی ہے بلکہ اب تو خلاف ورزیوں پر جرمانہ بھی عائد کیا جا رہا ہے۔ مقامی امیدواروں اور ان کے حامیوں کو البتہ اپنے آپ ضابطہ اخلاق برقرار رکھنا ہے کیونکہ ایک ایک خاندان اور محلے سے کئی کئی امیدوار ایک دوسرے کے خلاف مختلف نشانات کے تحت انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر امیدوار اور ان کے حامی خاندانی روایات‘ رشتوں‘ اخلاقیات‘ تعلقمات اور چھوٹے بڑے کی تمیز برقرار رکھے ہوئے ہیں جو ایک قابل تعریف رویہ ہے۔ کئی جگہ امیدوار آپس میں بیٹھ کر خوش گپیاں کر رہے ہیں۔ انتخابات کا لطف لے رہے ہیں ان میں سے اکثر کو یہ احساس ہے کہ انتخابات ہوتے رہیں گے مگر رشتوں کا بھرم‘ چھوٹے بڑے کی تمیز‘ اخلاقیات اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کا حوصلہ سب میں ہونا ضروری ہے‘ ویسے بھی جنرل کونسلر کی نشست پر تین امیدواروں نے لازمی کامیاب ہونا ہے‘ اگر امیدواروں میں میچوریٹی اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اور گاؤں اور محلے کے مفاد کی خاطر کام کرنے کا جذبہ ہو تو وہ زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کو اپنا چیئرمین اور رہنما تسلیم کر کے آگے بڑھیں گے۔ آئندہ چار سال ویلج یا نیبر ہوڈ کونسل میں مشترکہ طور پر عوامی مسائل کے حل‘ ترقی‘ تعلیم و صحت‘ پانی کی فراہمی وغیرہ کیلئے کام کریں گے‘ بھائی چارہ اور باہمی عزت‘ ایک دوسرے کو تسلیم کرنا‘ خاص کر خدا کی مرضی پر راضی ہونے والے لوگ ہی ہر میدان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جو لوگ انتخابات کے اختلافات کو دشمنی میں بدلتے ہیں ہمیشہ ان کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ اگر کونسل میں حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کرنا ہو تو یہ کردار صرف اور صرف عوام اور علاقے کی بھلائی کے لئے ہونا چاہئے نہ کہ اپنی انا کی تسکین کیلئے اور کونسل کے کام میں روڑے اٹکانے کیلئے۔ انتخابات ایک جمہوری عمل ہے جس میں عام آدمی کو اپنے لئے اور علاقے کے لئے بہترین امیدوار چننے کا حق ملتا ہے۔ اب کی بار بھی ووٹرز کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں‘ برادری اور تعلق سے قطع نظر ووٹ صرف اس امیدوار کو دیں جو میرٹ پر پورا اترتا ہو‘ جو قابل ہو‘ جو ایماندار ہو‘ جس کے دل میں کام کرنے اور خدمت کرنے کا جذبہ ہو نہ کہ اس عہدے کو غلط استعمال کرنے کا یا وعدہ کر کے بھول جانے کا۔ ووٹرز اپنے امیدواروں سے ویڈیوز کے ذریعے بھی یہ یقین دہانی لے سکتے ہیں کہ کامیابی کے بعد انہوں نے علاقے اور عوام کیلئے کام کرنا ہے۔ کرسی کے گھمنڈ میں غریب لوگوں سے کئے گئے وعدے بھول نہیں جانا‘ عوام کا اچھا انتخاب ہی ان کے اور علاقے کے مسائل کا حل ہے‘ فیصلہ خود عوام کے ہاتھ میں ہے۔