بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میں پشاور کو رنگ برنگے پوسٹروں سے سجا دیا گیا ہے۔ اہل پشاور نے کبھی بھی بلدیاتی انتخابات کی اِس قدر تیاریاں نہیں دیکھیں جس میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ گلی محلے‘ کوچہ و بازار اور بڑی شاہراؤں پر ضلع کے کونے سے دوسرے کونے تک پارٹی پرچموں لہرا رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابی اُمیدواروں کو جاری کردہ ضابطہئ اخلاق کو بھی خاطر میں نہیں لایا جا رہا! صورتحال یہ ہے کہ پشاور کا اصل مقابلہ ’میئر شپ (ضلع ناظم)‘ کیلئے ہے اور اِسی مقابلے کیلئے 17 اُمیدوار ایک دوسرے کی عوامی مقبولیت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ میئرشپ کی اِس دوڑ میں 9 اُمیدوار آزاد جبکہ 8 اُمیدوار مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد ہیں تاہم پولنگ کی تاریخ (اُنیس دسمبر) قریب آتے ہی مرکزی کردار پیپلزپارٹی پارلیمینٹرنز‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (نواز) اور عوامی نیشنل پارٹی زیادہ سے زیادہ اُمیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں کیونکہ یہی بلدیاتی انتخابات (طبل جنگ) آئندہ عام انتخابات کی تیاری بھی ہیں اور ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے انتخابی تجربے کو نئے سیاسی حالات میں آزمانے جا رہی ہے۔ انتہائی ضروری تھا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل تحریک انصاف ضلعی اور صوبائی تنظیم سازی پر توجہ دیتی جیسا کہ اگر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کا صوبائی اجتماع کروایا جائے یا طلبہ شاخوں (سٹوڈنٹس یونین) کا الگ سے صوبائی کنونشن منعقد ہو اور اِسی طرح خواتین ونگ کا صوبائی کنونشن اور آن لائن و دیگر روایتی ذرائع سے بروقت تنظیم سازی مہمات شروع کی جاتیں‘ جن کی جانب اِن سطور کی جانب بارہا توجہ دلائی جاتی رہی تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ کسی ایک شخصیت کے آنے یا جانے سے متاثر نہیں ہوگا لیکن اصل مرحلہ آئندہ قومی انتخابات ہیں جس کا طبل جنگ بج چکا ہے۔۔ تحریک انصاف کی قیادت اپنی ساری توجہ صرف اُور صرف بلدیاتی انتخابات ہی پر مرکوز کئے ہوئے نہیں بلکہ وہ بیک وقت مختلف محاذوں پر ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے تاہم سیاسی نظم نسق کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اِی گورننس سے سیاست نظم و نسق کو بھی درست کیا جا سکتا ہے۔ ہر رکن کے کوائف (پروفائل) بمعہ تعلیمی قابلیت‘ تجربہ اور اہلیت کے بارے اگر اعدادوشمار دستیاب ہوں گے تو آئندہ انتخابات کیلئے نامزدگیاں کرنے کا عمل شفاف و آسان ہوگا۔ تجویز ہے کہ ”سٹیزن پورٹل“ کی طرح کارکنوں کی شکایات درج کرانے کیلئے ”آواز موبائل ایپ“ کا اجرأ کیا جائے‘ جہاں آئندہ پارٹی ٹکٹ اجرأ سے قبل رجسٹرڈ کارکنوں کی رائے (ووٹنگ) کی بنیاد پر نامزدگیوں سے متعلق فیصلہ ہو اور اِسی ’اِی گورننس‘ کا ثمر یہ بھی ہوگا کہ کسی بھی مشکل کا بخوبی مقابلہ کیا جاسکے گا اور یہ کسی ایک جماعت کیلئے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے ایک اہم مرحلہ ہے جہاں انہیں مستقبل کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے انداز میں سیاسی جماعتوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ای گورننس کے تجربے کو محض حکومت میں نہیں بلکہ سیاسی ڈھانچے میں بھی آزمانا چاہئے اس طرح پارٹیاں زیادہ منظم انداز میں کام کرنے کے قابل ہوں گی اورکارکنوں کے ساتھ قائدین کو زیادہ قریبی روا بط برقرار رکھنے میں بھی اس سے آسانی فراہم ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ روایتی طر زسیاست کو بدلا جائے اور نئے دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ جن سے سیاست حقیقی معنوں میں قو م کی خدمت اور ملک کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ ثابت ہو۔