بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس اجلاس میں موسم سرما کی تعطیلات (عرف عام میں سردیوں کی چھٹیاں) آگے بڑھانے سے متعلق غور جاری ہے۔ وزارت تعلیم کی جانب سے جاری سرکلر کے مطابق اجلاس میں بچوں کی ویکسنیشن سمیت سکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں طے ہو رہی ہیں اور تجویز ہے کہ اِس مرتبہ سردیوں کی چھٹیاں جنوری میں منتقل کر دی جائیں۔ اجلاس میں صوبائی نظام تعلیم سے متعلق اصلاحات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ وزارت صحت نے وزارت تعلیم کو موسم سرما کی تعطیلات آگے بڑھانے کی تجویر دے رکھی ہے۔ وزارت تعلیم کا کہنا ہے سردیوں کی چھٹیوں سے سکولوں میں جاری ویکسی نیشن کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ سندھ کے محکمہئ تعلیم سے متعلق سٹیئرنگ کمیٹی 20 دسمبر سے یکم جنوری دوہزاربائیس تک تعطیلات کا اعلان کر چکی ہے جہاں تعلیمی ادارے تین جنوری سے معمول کے مطابق کھلیں گے۔چودہ دسمبر کو جاری ہونے والی موسمیاتی پیشگوئی کے مطابق سردی کی شدید لہر سے ملک کے بالائی حصے اور بالخصوص شمالی علاقہ جات متاثر ہوں گے جبکہ اِس دوران میدانی علاقوں میں کہرا (دھند) رہے گی۔بالائی علاقوں جیسا کہ خیبرپختونخوا کے ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن یا اِن سے متصل شمالی علاقہ جات میں موسم سرما کی برفباری کے دوسرے دور کا آغاز چودہ دسمبر کے روز ہوا۔ قبل ازیں ہلکی بارش اور کچھ علاقوں میں برفباری ہوئی لیکن چودہ دسمبر سے شروع ہونے والا سلسلہ کئی روز تک جاری رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے اور اِس دوران درجہئ حرارت نکتہئ انجماد سے کم رہے گا۔ بالائی علاقوں کے تعلیمی ادارے موسم سرما کی تعطیلات کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ موسم کی شدت ہے اور دوسری وجہ گیس کی قلت اور سی این جی کی وقفوں سے فروخت کی حکمت عملی ہے۔ اِن دونوں وجوہات کی بنا پر معمولات زندگی شدید متاثر ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں کلاس رومز کو گرم رکھنے کیلئے گیس کے ہیٹرز نہیں ہوتے جبکہ نجی سکولوں میں اِس بات کا اہتمام ہوتا ہے لیکن گیس پریشر میں کمی کے باعث یہ بندوبست بھی کام نہیں کر رہا اور والدین نے مطالبہ کیا ہے کہ 1: موسم کی شدت‘ 2: گیس کی قلت کے باعث پریشر میں کمی اور 3: سی این جی مخصوص اوقات میں فروخت کرنے جیسے محرکات کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو موسم سرما کی تعطیلات دے دینی چاہیئں جو ایک معمول کا اقدام ہے۔شہری و دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کیلئے اکثریت کی آمدورفت کا انحصار پبلک ٹرانسپورٹ پر ہوتا ہے جس کا بنیادی اِیندھن ’سی این جی‘ ہے اور گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی بحال رکھنے کیلئے شام چار سے صبح نو بجے تک سی این جی اسٹیشنز بند رکھے جاتے ہیں جبکہ صبح نو بجے سے سی این جی سٹیشنز کے باہر میلوں لمبی گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ’سی این جی‘ ایندھن ’کمپریسڈ گیس‘ ہوتی ہے اور جب بیک وقت سینکڑوں گاڑیاں ایندھن ڈلوائیں تو اِس کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے گیس منتقل نہیں ہوتی اور اِس سے صارفین کا نقصان ہوتا ہے۔ سی این جی مالکان کو اِس بندوبست پر کوئی اعتراض نہیں کہ جس میں ایک گھنٹے کے اندر سینکڑوں گاڑیاں اُن سے ایندھن خریدیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ بہرصورت نقصان صارفین کا ہو رہا ہے کہ ’سی این جی‘ تعطل کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ نے کرایوں میں من مانے اضافے کر دیئے ہیں جبکہ بالائی علاقوں کے طالب علموں بالخصوص بچوں کے لئے ناموافق موسمی حالات میں آمدورفت آسان نہیں۔ شعبہئ تعلیم کے حوالے سے فیصلہ سازوں کو عوام کی مشکلات بارے غور کرنا چاہئے اور سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے بالائی علاقوں میں رہنے والوں کے اس مطالبے اور دلیل کا دردمندی سے غور کرنا چاہئے کہ موسم کی شدت متقاضی ہے کہ سردیوں کی تعطیلات کا اعلان بلاتاخیر ہونا چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ کورونا وبا کے سبب تعلیمی سال کے ایام پورا کرنے کیلئے گزشتہ برس (دوہزاربیس) میں موسم سرما کی تعطیلات کا دورانیہ کم کیا گیا جبکہ حالات معمول پر آنے کے بعد اس سال سردیوں کی تعطیلات تاخیر سے جاری کرنے کی وجہ ’کورونا ویکسی نیشن‘ بتائی جا رہی ہے جس کیلئے میدانی اور پہاڑی علاقوں کے درمیان تمیز کرتے ہوئے تعطیلات کے الگ الگ شیڈول جاری کرنے چاہیئں۔