بھارت میں جب سے نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار سنبھالاہے مذہبی اقلیتوں پر عرصہ حیات روز بروز تنگ ہوتا جارہا ہے۔ تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندو انتہاپسندوں نے ہندوستان کے کئی مقامات پر مسلم دور کی کئی نشانیوں کو مٹادیا۔کئی عید گاہیں مسمار کردی گئیں۔بھارت میں سیکولرازم کا پرچار کرنے والے موہن داس کرم چند نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مسلمان یا تو ہمارے ہی لوگ ہیں جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔یا وہ درانداز ہیں باہر سے آکر ہم پر حکومت کرتے رہے۔ جو باہرسے آئے تھے وہ اپنے ملکوں کو واپس چلے جائیں اور جنہوں نے مذہب تبدیل کیاتھا۔وہ دوبارہ ہندو مذہب اختیار کریں کیونکہ ہندوستان میں ہندوؤں کے سوا کسی کو رہنے کا حق نہیں۔ بعد میں سیاسی مفادات کی خاطر جواہر لعل نہرواور گاندھی جی نے ہندومسلم اتحادکا نعرہ لگایا۔ اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ تاریخی الفاظ کہے کہ کسی مسلمان اور ہندو کی شادی نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کا ہیرو ہندوؤں کا دشمن اور ان کا ہیرو ہمارا دشمن ہے۔ وہ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے۔ مسلمان گائے کو ذبح کرکے کھاتے ہیں اور ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ دونوں کو ایک قوم قرار دے کر ایک ملک میں رہنے پر مجبور کرنا پورے ملک کی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیاتھا۔ تقسیم ہند کے بعد بھی دلی کے تخت شاہی پر براجمان ہونے والے ہر حکمران نے اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگایا لیکن مذہبی اقلیتوں پر موجودہ حکومت نے جو مظالم ڈھائے ہیں ان کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے قانون میں تبدیلی کے ساتھ ہندوؤں کو وہاں لاکر بسانے کا منصوبہ روبہ عمل ہے۔ بھارتی ریاست ہریانہ میں بی جے پی کے وزیراعلیٰ منوہر لال نے حال ہی میں پوری ریاست میں مسلمانوں کے کھلے مقامات پر نماز ادا کرنے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ منوہر لال نے کھلے مقامات پر نماز اور دیگر مذہبی سرگرمیوں کی ادائیگی کے عمل کو ’ناقابل برداشت‘ قرار دے دیا۔وزیراعلیٰ نے انتظامیہ کو احکامات جاری کئے ہیں کہ مسلمانوں کو عبادات کی ادائیگی کیلئے گھروں تک محدود رکھاجائے۔منوہر لال کا کہنا ہے کہ کوئی نماز پڑھتا ہے، کوئی پاٹھ کرتا ہے، کوئی پوجا کرتا ہے ان سب کیلئے الگ الگ مقامات مختص ہیں۔ انہوں نے 2018 میں مسلمانوں کے ساتھ مذہبی آزادی کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیادنیا کے تمام مذاہب میں انتہاپسند اور میانہ رو دونوں طبقے موجود ہیں یہودی اور ہندو مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت انتہاپسندانہ سوچ رکھتی ہے لیکن انتہاپسندی کو صرف مسلمانوں کے ساتھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نتھی کیاجارہا ہے کیونکہ وہ صرف اسلام کو ہی اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔انہیں بخوبی معلوم ہے کہ جب مسلمان متحد ہوجائیں تو ہر محاذ پرکامیاب ہوں گے‘ہمیں قومیت، علاقائیت، لسانیت اور جاگیر و جائیداد اور مال و دولت سے بالاتر ہوکر امت بن کر سوچنا ہوگا۔ ہماری سیاسی قیادت کو پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو ایک متحد قوم بنانے پر سوچنا ہوگا۔ہمارے اساتذہ، علماء، دانشوروں اور رائے عامہ ہموار کرنے والوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔