سقوط ڈھاکہ،نصف صدی کا قصہ 

اب تو نصف صدی ہوگئی ہے مگر زخم اب بھی ہرے ہیں ا ن پچاس برس میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی مزید بہہ چکاہے اور ہم اب کسی اور تلخ تجربہ کے متحمل نہیں ہوسکتے پچاس برس قبل جب ملک پر کٹھن گھڑیاں آئی ہوئی تھیں تب کسی طرف سے لچک کامظاہر ہ نہیں کیاگیا سیاسی عدم بلوغت اور سب سے بڑھ کر حقیقی عوامی مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دولخت ہوگئی مگر ذمہ دارا ن کاتعین کیاجاسکانہ ہی کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیاجاسکا گویا کچھ ہوا ہی نہیں لیکن قدرت کادست انتقام بھی خاموش نہیں رہتا چنانچہ اس عظیم المیہ میں ملوث ایک ایک کردار پھر قدرت کے انتقام کاشکار ہوتے گئے آج سولہ دسمبر ہے یہی وہ دن تھاکہ جب سیاستدانوں اوراس وقت کی اشرافیہ کے ہوس اقتدار کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دولخت ہوگئی تھی ملک کے نوے ہزار فوجی جنگی قیدی بنے تھے مگر کس قدر بے حس قوم ہیں ہم کہ آج تک اس سے سانحہ کے اسباب وعوامل اور کرداروں کو پردہ میں رہنے دینے کی عجیب وغریب پالیسی اختیاررکھی گئی لے دے کے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ رہ جاتی ہے اس کابھی جو حشر کردیاگیاہے وہ سب کے سامنے ہے حالانکہ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ اس رپورٹ کو جامعات میں نصاب کاحصہ بنادیا تھا اس کے بعض حصے ہمارے سکولوں کالجوں میں پڑھائے جاتے مگر آج تو ہماری نئی نسل کو علم ہی نہیں کہ بنگلہ دیش بھی کبھی ہمارا مشرقی بازو ہواکرتاتھا خود بنگلہ دیشی حکومت نے چند سال قبل جس طرح سے اس وقت متحد ہ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے بنگالی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کاسلسلہ کیا  وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے 1946ء کے انتخابات کے بعد جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ ہندوستان نے تقسیم ہونا ہے تو مسلم لیگی رہنما حسین شہید سہروردی نے ایک تحریک شروع کی کہ بنگال تقسیم نہ ہو اور ایک آزاد وخودمختار ریاست کی حیثیت سے سامنے آئے ان کی اس تحریک کو قائداعظم کی حمایت بھی حاصل ہوگئی تھی مگر ہندوتیار نہ ہو سکے کیونکہ متحدہ بنگال میں بہرحال مسلمانوں کی اکثریت ہوتی اور یوں کلکتہ جیسا اہم ترین اقتصادی و علمی مرکز اور بڑی بندرگاہ ایک مسلمان ملک کے پاس ہوتی ظاہر ہے متحدہ بنگال سے پھر ہندوؤں کا بڑی تعداد میں انخلاء ہوتا اور بھارت سے بڑی تعداد میں مسلمان متحدہ بنگال آجاتے سو ہندوؤں نے دور اندیش سہروردی کی سکیم ناکام بنا دی بنگال تقسیم ہوگیا اور منصوبے کے مطابق کلکتہ بھارت کو مل گیامشرقی بنگال کاسارا پسماندہ علاقہ پاکستان کو ملا اور تمام ترکوتاہیوں کے باوجود پاکستان نے اس علاقہ کو کماحقہ ترقی دینے کی کوششیں کیں جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں پہلی بار صنعتوں کو فروغ حاصل ہوناشروع ہوا حتیٰ کہ بہت بڑی تعداد میں پنجاب کے تربیت یافتہ ہنر مند مشرقی پاکستان کے کارخانو ؒں میں کام کرنے لگے کلکتہ ہڑپ کرنے کے باوجود بھارت کو تسلی نہ ہوئی اوروہ پہلے دن سے مشرقی پاکستان میں حالات خراب کرنے کے منصوبہ پر عمل پیراہوا اس میں کچھ حصہ ہمارے نااہل حکمرانوں نے بھی ڈالا اگرحسین شہید سہرودی کو کمزور نہ کیا جاتا تو یقینا مشرقی پاکستان میں کسی کو بھی آزادی کانعرہ بلند کرنے کی جرات نہ ہوتی جنرل ایو ب خان کے دور میں جب جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان کاگورنربنایا گیا تو انہوں نے پہلی بار بنگالی بھائیوں کو گلے لگاتے ہوئے ہرمعاملہ میں ان کی عزت نفس کو برقراررکھنے کی حامل پالیسوں کوفروغ دیا جس کی وجہ سے پورے مشرقی پاکستان کے محسن گردانے جانے لگے اورپھر حاسد مشیروں کی وجہ سے ایو ب خان نے جنرل اعظم خان کو فوری طورپر مستعفی ہوکر واپس بلایا اس روز ڈھاکہ میں لاکھوں بنگالی سڑکوں پرنکل آئے تھے ان کامطالبہ تھاکہ جنرل اعظم خان کسی صورت نہ  جائیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اس کے بعد ان کے ساتھ نو آبادیاتی سلوک پھر سے شروع ہوجائے گا اورپھروہی ہوا نئے حکمرانوں نے بنگالی مسلمانوں کو برابر کاشہری سمجھنے کے بجائے ان کے ساتھ غلاموں والا رویہ اختیار کیا۔ رہی سہی کسر بھارتی پروپیگنڈے نے پوری کردی اور پھر جب 1970میں عام انتخابات ہوئے تو حکمرانوں کے تمام تراندازوں کے برعکس شیخ مجیب الرحمان نے کلین سویپ کرلیا اوراس کے بعد جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اس کانتیجہ سولہ دسمبر کو سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں سامنے آیا مگر افسوس کہ اس سانحہ کے اصل ذمہ دار سامنے نہ لائے جاسکے جو ایک اور مجرمانہ فعل اوربدترین قومی غفلت کاسنگین مظاہرہ ہے بلکہ اب تو کچھ عرصہ سے شعوری یا لاشعوری کوشش یہی دکھائی دے رہی ہے کہ سال میں جو ایک دفعہ اس سانحہ کے حوالہ سے بات ہوا کرتی تھی وہ بھی اب نہ ہواکرے یہ رویہ یاکوشش انتہائی افسوسناک بلکہ تشویشنا ک ہے کیوں کہ متاع کارواں تو پہلے ہی جاتارہاہے اب اگر احسا س زیاں بھی جاتارہا تو پھر باقی کچھ بھی نہیں بچے گا وقت آگیاہے کہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے حوالہ سے کھلے عام مکالمے اور مباحثے کو عام کیاجائے پتہ تو چلے کہ غلطی کب اور کس سے اور کس طرح ہوئی انہی غلطیوں سے تو ہمیں بچناہے مگر ہم ہیں کہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ تجربہ پہ تجربہ کرتے جائیں گے اور سیکھیں گے کچھ بھی نہیں حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں جن جن پر ذمہ داری عائد ہوئی ہے ان کو بعد ازمرگ بھی نشان عبرت بنایا جاسکتاہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی ملک کے ساتھ کھلواڑ کی جرات نہ کرسکے ساتھ ہی اس سانحہ کے سیاسی عوامل اور ذمہ داروں کو بھی اب تاریخ کے کٹہرے میں کھڑ ا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔