خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کا مرحلہ اُنیس دسمبر کے روز مکمل ہوگا‘ جس کے لئے تیاریوں اور اِس ”عمل“ کی انجام دہی کے لئے انتظامات باریک بینی سے مکمل ہو رہے ہیں۔ عام آدمی کی توجہ بظاہر گہماگہمی پر ہے جس میں انتخابی اُمیدوار اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے اور گھر گھر اپنا پیغام پہنچانے کے لئے دن رات سرگرداں ہیں تو اِس منظرنامے کا ایک اوجھل پہلو یہ بھی ہے کہ انتخابی و انتظامی تیاریوں کا حجم غیرمعمولی ہے جن میں حفاظتی انتظامات بھی شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن کا عملہ پہلے مرحلے میں 9 ہزار پولنگ مراکز کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہے اور جہاں شب و روز میں اہلکاروں کو سرکھجانے کی فرصت تک نہیں تو دوسری طرف حفاظتی انتظامات کے سلسلے 9 ہزار پولنگ مراکز کے لئے 77 ہزار پولیس اہلکاروں کی خدمات سے استفادہ کرنے کی منظوری دیدی گئی ہے جو اپنی نوعیت کی بہت بڑی مشق ہوگی۔ وہ لوگ جو انتخابات کے دن اپنا ووٹ ڈالنا پسند نہیں کرتے اُنہیں اِس پورے عمل پر اُٹھنے والے اخراجات اور اِس سلسلے میں پوری حکومتی مشینری کی مصروفیات کو دیکھنا چاہئے کہ قومی اور صوبائی ہوں یا بلدیاتی انتخابات انتہائی اہم ہوتے ہیں اور اِن سے لاتعلقی کرنے والوں کو پھر یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ قومی صوبائی یا بلدیاتی حکومت پر تنقید کریں جبکہ انہوں نے وقت آنے پر اپنا ووٹ دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی۔”خوابوں کا انتخاب بدلتا دکھائی دے …… کاش اب کے اِختیار سنورتا دکھائی دے (اظہر ہاشمی)۔“بلدیاتی انتخابات کے لئے حفاظتی انتظامات کے لحاظ سے پولنگ مراکز کو 3 درجات (اے‘ بی اُور سی کٹیگری) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے درجے (اے کٹیگری) کے ہر پولنگ اسٹیشن پر 9 پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں گے۔ دوسرے درجے (بی کٹیگری) کے ہر پولنگ اسٹیشن کے لئے پانچ اور تیسرے درجے (سی کٹیگری) میں آنے والے (نسبتاً پرامن) ہر پولنگ مرکز پر 3 اہلکار تعینات ہوں گے۔ ضلع پشاور کے تمام اور زیادہ آبادی والے سبھی علاقوں کے پولنگ مراکز کو ’پہلے درجے (کٹیگری اے)‘ میں رکھا گیا ہے لیکن کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مزید پولیس اہلکاروں کو طلب کیا جا سکے گا اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں اندرون پشاور کے انتخابی حلقوں پر درجنوں کی تعداد میں پولیس اہلکاروں کی ضرورت پڑے گی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ماضی کے انتخابی نتائج اور اِس مرتبہ گہماگہمی کو مدنظر رکھا جائے تو ضلع پشاور کی حد تک بلدیاتی انتخابات میں متوقع زیادہ سے زیادہ پولنگ کی شرح بھی پچاس فیصد سے ساٹھ فیصد کے درمیان رہے گی جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح کم رہنے کی ایک وجہ سردی کی لہر بتائی جا رہی ہے۔ اصولاً الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں میدانی علاقوں کی بجائے بالائی علاقوں میں انتخابی عمل مکمل کروانا چاہئے تھا جہاں سردی کی شدت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اور کچھ علاقوں میں بارہ دسمبر سے برفباری کا سلسلہ بھی جاری ہے جہاں دو ہفتوں بعد موسم شدید سرد ہونے کی وجہ سے انتخابی عملے کے پہنچنے اور ووٹروں کے گھروں سے نکلنے کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔ صوبائی سطح پر بلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلہ سازی کے مراحل میں زیادہ زور انتخابی عمل کے انعقاد پر ہے اور اِس سلسلے میں عام آدمی کے مؤقف یا اُس کی معمولات و حالات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ اس سلسلے میں زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور دوسری اہم بات انتخابی اخراجات کی ہے جسے غیرمعمولی طور پر بڑھا دیا گیا ہے۔ تصور کریں کہ ہر پولنگ اسٹیشن کے لئے پولیس اہلکار مختص کرنے کے علاؤہ ’کوئیک ریسپانس فورس‘ نامی خصوصی دستے سے تعلق رکھنے والے مستعد پولیس اہلکار بھی تیار رہیں گے جنہیں اگرچہ کسی بھی پولنگ سٹیشن پر تعینات نہیں کیا جائے گا لیکن اِنہیں طلب کیا جا سکتا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے لئے 17 میں سے کوئی ایک بھی ضلع حساس قرار نہیں دیا گیا لیکن اِس کے باوجود بھی قریب ایک لاکھ پولیس اہلکار انتخابی عمل کی بلواسطہ یا بلاواسطہ نگرانی کر رہے ہوں گے تو کیا یہ معمولی بات ہے اور کیا اِس قدر انتظامات و اخراجات اِس بات کے متقاضی نہیں کہ ہر رجسٹرڈ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرے اور اپنے ووٹ کی طاقت و اہمیت کو سمجھے؟ ”وقت کا انتخاب ہیں ہم لوگ …… بانیئ انقلاب ہیں ہم لوگ (طالب شملوی)۔“