اِکیس اکتوبر دوہزار اِکیس: الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا اور اِس سلسلے میں پہلے مرحلے کی پولنگ کیلئے سترہ اضلاع میں اُنیس دسمبر (دوہزاراکیس) جبکہ دوسرے مرحلے کے لئے اٹھارہ اضلاع میں پولنگ کی تاریخ سولہ جنوری (دوہزاربائیس) مقرر کی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ اگست دوہزاراکیس میں خیبرپختونخوا حکومت نے الیکشن کمیشن سے بذریعہ چیف سیکرٹری رابطہ کیا اور بلدیاتی انتخابات اگست 2022ء تک ملتوی کرنے کی درخواست کی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اُنیس دسمبر دوہزار اکیس: بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں آج سولہ اضلاع (بونیر‘ باجوڑ‘ صوابی‘ پشاور‘ نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ کرک‘ بنوں‘ ٹانک‘ ہری پور‘ خیبر‘ مہمند‘ چارسدہ‘ مردان‘ ہنگو اور لکی مروت) کے رہنے والے اپنے بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب کریں گے‘ خاص بات یہ ہے کہ مذکورہ سولہ اضلاع ویلیج نیبرہڈ کونسلوں میں مخصوص نشستوں پر خواتین انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔ اِس منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے انتخابی بندوبست بارے فیصلہ سازوں کیلئے دعوت ِفکر و عمل ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابی مراحل میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے تو سماجی خدمت سے سرشار خواتین کو بھی سیاسی عمل میں اِسی تناسب سے حصہ لینے کا موقع ملنا چاہئے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات میں خواتین بطور اُمیدوار حصہ لینے کو معیوب نہیں سمجھتیں اور سیاسی جماعتیں بھی خواتین کو نامزد کرتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ اُن کی اہلیت کو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن قومی و صوبائی انتخابات کے موقع پر اتنی ہی بڑی تعداد میں خواتین کو نامزد کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ الیکشن کمیشن قواعد میں ترامیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے داخلی فیصلوں کو بڑی حد تک جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو مخصوص نشستوں کیلئے تو نامزد کرتی ہیں لیکن جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کیلئے خواتین کی حوصلہ افزائی نہیں جاتی۔خیبرپختونخوا کے سولہ اضلاع کے علاؤہ ملک اور صوبے کی نظریں پشاور کے انتخابی مقابلوں پر ہیں‘ سیاسی جماعتوں کے کئی دیرینہ کارکن اپنی ہی جماعت کے نامزد اُمیدوار کے خلاف الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور اِس صورتحال نے پشاور شہر کی سطح پر کافی پیچیدگیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ پشاور کے 1249 پولنگ مراکز‘ جن میں سے 204 انتہائی حساس اُور 880 حساس قرار دیا گیا ہے کے لئے گیارہ ہزار سے پولیس اہلکاروں پر مبنی غیرمعمولی انتظامات میں ’ڈرون کیمروں‘ کا بھی استعمال بھی شامل ہے۔ پشاور پولیس کے سربراہ نے پولنگ مراکز پر تعینات پولیس اہلکاروں کو دیگر ہدایات کے ساتھ یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ اپنے موبائل فون کا کم سے کم استعمال کریں۔ حال ہی بنائے گئے پولیس کے خصوصی دستے (ابابیل سکواڈ) کو بھی پولنگ مراکز کے آس پاس گشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ امن و امان کو بہرصورت یقینی بنایا جا سکے۔ماضی کی طرح بلدیاتی انتخابات کا ایک اور مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہونا اپنی جگہ اہم جن میں اکادکا تصادم کے واقعات بھی پشاور کی انتخابی تاریخ کا حصہ ہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ کیا اِن انتخابات سے پشاور اور دیگر اضلاع کے دیرینہ مسائل حل ہو رہے ہیں؟ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مرتبہ پھر کامیاب و کامران ہوں گی لیکن کیا یہ ’تگ و دو‘ سے عام آدمی کا بھی بھلا ہوگا؟ لطیف نکتہ یہ ہے کہ پشاور شہر کا کوئی ایک حصہ بھی تجاوزات سے پاک نہیں اور تحصیل پشاور کی نظامت کے لئے کوئی بھی اُمیدوار تجاوزات کے خاتمے کی بات نہیں کر رہا جبکہ اِنہی تجاوزات کی وجہ سے پشاور سے نکاسیئ آب کا نظام بھی شدید متاثر ہے۔ اِسی طرح پشاور کے وقف قبرستانوں کی اراضی جس تیزی سے قبضہ ہو رہی ہے اِس بارے بھی سیاسی جماعتوں نے تجاہل عارفانہ اختیار کر رکھا ہے۔ پشاور کے مسائل بارے سوشل میڈیا پر فریاد کرنے والے بذریعہ ووٹ تبدیلی لا سکتے ہیں اور ایسے اُمیدواروں کو قبول یا مسترد کرنے کا اختیار بھی اہل پشاور (ووٹروں) ہی کے پاس ہے‘ جن کی ترجیح پشاور نہیں دیکھا جائے تو ووٹ کا دن وہ عام لمحہ ہے جس میں علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اگر اس لمحے کی اہمیت کا اندازہ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا فیصلہ کیا جائے جس کے آنے والے وقتوں میں دوررس اثرات مرتب ہوں اور عام آدمی کے مسائل حل ہوں۔یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ پولنگ مہم کے دوران تمام امیدواروں نے قواعد وضوابط کا خیال رکھا اور اس حوالے سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی اگر تسلسل کے ساتھ بلدیاتی الیکشن منعقد ہوتے رہے تو یہ ایک طرح سے سیاسی تربیت ہوتی ہے جو کارکنوں کو اہم مراحل کے لئے تیار کرنے میں مدد دیتی ہے اور ترقیافتہ ممالک میں بلدیاتی اداروں کو کئی حوالوں سے اہمیت حاصل ہے وہاں پر خدمات کے تمام شعبے مقامی حکومتوں کی نگرانی میں کام کرتے ہیں اور عوام کو خاطر خواہ سہولیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی نظام کو تقویت دینے کے لئے مربوط لائحہ عمل تشکیل دے اور آپس میں اس نقطے پر متفق ہو جائیں کہ عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مدد دینے والا یہ نظام مضبوط بنایا جائے گا اور اسے سیاسی عزائم کی نذرنہیں ہونے دیا جائے گا۔