تحریک انصاف بجا طور پر فخر کر سکتی ہے کہ اِس نے 2020-21ء کے صرف سات ماہ کے دوران خیبرپختونخوا کے 2 لاکھ 50 ہزار 439 افراد کو ’صحت انصاف کارڈ‘ کے ذریعے مفت علاج معالجے کی معیاری سہولیات فراہم کیں۔ آمدنی کے لحاظ سے کمزور طبقات کو فراہم کی جانے والی علاج معالجے کی سہولیات نجی و سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کی گئیں اور اِس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی لیکن ’صحت انصاف کارڈ‘ نامی حکمت ِعملی کے چند ایسے پہلو بھی ہیں جن کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس حکمت ِعملی سے نجی علاج گاہوں نے زیادہ فائدہ اُٹھایا اور کئی ایسی بے قاعدگیاں بھی سامنے آئیں جنہیں مخالفت سمجھ کر نظرانداز کرنے کی بجائے اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں توجہ دیں تو اِس سے خاطرخواہ بہتری جیسے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ سات ماہ کے دوران خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے 174 ہزار سے زائد مریضوں نے نجی جبکہ 76 ہزار سے زائد نے سرکاری ہسپتالوں سے علاج کروایا اور اِس پورے عمل پر حکومت کی جانب سے مختلف ہسپتالوں کو مجموعی طور سے 7.2 ارب روپے ادا کئے گئے۔ اِس سے قبل خیبرپختونخوا مختلف ہسپتالوں کو 13 ارب سے زیادہ جبکہ بیمہ کمپنی قریب 6 ارب روپے ادا کر چکی ہے اور رواں مالی سال 2021-22ء کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے صحت انصاف کارڈ کے لئے 23 ارب روپے مختص کئے تاکہ 74لاکھ سے زائد (7.49 ملین) خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ کے ذریعے مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اِسی طرح حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے رہنے والے خاندانوں کو بھی خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کے مساوی ’صحت اِنصاف کارڈ‘ کا بیمہ فراہم کیا گیا ہے۔ صحت انصاف کارڈ (ہیلتھ انشورنس) کا تصور اگرچہ نئی بات نہیں لیکن پاکستان میں چونکہ ایسی کوئی مثال موجود نہیں اِس لئے اِس منفرد کوشش کو ہر سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال سے اِس کے کامیاب پہلوؤں کو سمجھا جاسکتا ہے کہ صوبے کے کل خاندانوں کی ہیلتھ انشورنس کرنے کے ایک سال بعد جب حساب کتاب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پہلے سال فی خاندان 2 ہزار 849 روپے خرچ ہوئے جبکہ ہر خاندان کے لئے دس لاکھ روپے کا بیمہ کیا گیا تھا اور یوں بیمہ کمپنی نے انشورنس کی باقی رقم صوبائی حکومت کو ادا کیا۔ اِس طرح حکومت نے ایک طرف عوام کو علاج معالجے کی مفت سہولت بھی دی اور دوسری طرف اِس حکمت عملی سے آمدنی بھی حاصل ہو گئی تو یہی وجہ ہے کہ سیاسی فائدے (نیک نامی) کے ساتھ اِس سے مالی فائدہ بھی اُٹھایا گیا ہے۔خیبر پختونخوا میں تحریک ِانصاف حکومت کا تسلسل سال دوہزار تیرہ سے جاری ہے اور پہلے پانچ سال کے دوران صحت کے شعبے میں جو اصلاحات بشمول ہیلتھ کیئر سسٹم کی توسیع کی گئی اُس کے ثمرات نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت بھی اب تک وصول کر رہی ہے لیکن اِس نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے کے بہت کم کوشش دیکھنے میں آئی ہے جیسا کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کا معیار اور سہولیات اُس بلندی تک نہیں لیجائی جا سکیں جہاں عوام کی اکثریت نجی ہسپتالوں کے مقابلے سرکاری ہسپتالوں کو ترجیح دیں۔