عدالت عظمیٰ نے مختلف سرکاری محکموں کے 16 ہزار سے زائدبرطرف ملازمین کی بحالی کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں خارج کر دیں۔ عدالت نے تمام سولہ ہزارسرکاری ملازمین کو برطرفی کی تاریخ سے بحال کرنے کا حکم دیدیا۔عدالت نے حکومتی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ گریڈ 8 سے 16 تک کے ملازمین کوقانونی تقاضے اورمیرٹ پر پورااترنے کیلئے محکمانہ ٹیسٹ و انٹرویو دینے ہوں گے۔جبکہ گریڈ ایک سے سات تک کے ملازمین کو بغیر ٹیسٹ انٹرویو بحال کیاجائے گا۔ جتنا عرصہ ملازمین برطرف رہے وہ عرصہ چھٹی تصور کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت اور برطرف ملازمین نے 17اگست2021کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی 146 درخواستیں دائر کی تھیں۔عدالت نے نواز شریف دور میں 1996سے1999تک تمام برطرف ملازمین کو بحال کردیا۔عدالت نے قراردیا کہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اورکرپشن پر نکالے گئے ملازمین بحال نہیں ہوں گے۔عدالت نے قرار دیا کہ ملازمین کے مسائل ایک انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے، حکومت انسانی پہلو سے متعلق جو ریلیف دینا چاہے اسے اختیارہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمان سپریم ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق 4 آئین سے متصادم ہے، جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے،سرکاری ملازمین کے وکیل کا کہنا تھا کہ معزز عدالت نے 16 ہزار ملازمین کو بحال کر کے ایک بڑا انسانی المیہ رونما ہونے سے بچا لیا ہے۔برطرف سرکاری ملازمین کو انصاف کے لئے 25سال تک انتظار کرنا پڑا۔ اس عرصے میں ایک تہائی ملازمین ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ محکمہ قانون و انصاف کو یہ بات واضح کرنی چاہئے کہ گریڈ آٹھ سے سولہ تک کے جو ملازمین ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کیاانہیں بھی میرٹ پر اترنے اور پنشن کا حق دار بننے کیلئے ٹیسٹ اور انٹرویو کے مرحلے سے گذرنا ہوگا یا انہیں ساٹھ سال پورے ہونے پر ریٹائرمنٹ کے واجبات کا حق دار ٹھہرایاجائے گا۔ بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے ملک میں سرکاری اداروں کو سیاسی اکھاڑہ بنایاجاتا رہا۔ ایک حکومت نے لوگوں کو ملازمتیں دیں تو اگلی حکومت نے انہیں سیاسی رقابت کی بنیاد پر ملازمت سے برطرف کیا۔ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آکر سرکاری اداروں میں تھوک کے بھاؤ بھرتیاں بھی کرتی رہیں۔ پاکستان ریلوے، واپڈا، پی ڈبلیو ڈی، پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں میں ضرورت سے چار گنا زیادہ بھرتیاں کی گئیں جس کی وجہ سے یہ ادارے گذشتہ کئی عشروں سے خسارے کا شکار ہیں۔ ریلوے میں ایک ہفتے کی ایڈوانس بکنگ کے بغیر سیٹ ملنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود ریلوے کی ساری آمدنی ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہوتی ہے۔ اور آپریشنل ضروریات کیلئے حکومت کو بیل آؤٹ پیکج دینا پڑتا ہے۔ دنیا کی تمام بڑی فضائی کمپنیوں میں ایک طیارے کے ساتھ 55ملازمین منسلک ہوتے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کے ہر طیارے کے ساتھ اڑھائی سو سے زیادہ ملازمین وابستہ ہیں۔تیس سال قبل دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہونے والی ہماری فضائی کمپنی آج ملازمین کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے۔ سرکاری ملازمتوں کیلئے اہلیت کامعیار تو مقرر ہے مگرماضی میں میرٹ کو ہر دور میں پیروں تلے کچلاگیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچیس سال قبل جن سولہ ہزار ملازمین کو فارغ کیاگیا تھا۔ ان کے بغیر دوعشروں تک متعلقہ محکموں کے امور کیسے نمٹائے جاتے رہے۔قلیل ملکی وسائل پر سیاسی بھرتیوں کا بار گراں اب ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ کفایت شعاری کے علمبردارارباب اختیار و اقتدار کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔