بلدیاتی انتخابات: اُمید کی دنیا

اُمید پر دنیا قائم ہے اور اِس تناظر میں جب ہم پشاور کو درپیش بحرانوں‘ مسائل اور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی بات کرتے ہیں تو نومنتخب بلدیاتی نمائندوں سے وابستہ توقعات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر سولہ اضلاع کی طرح ضلع پشاور میں بھی بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں ’پولنگ ڈے (اُنیس دسمبر)‘ جیسے تیسے گزر گیا اور وقت ہے کہ ماضی کی بجائے مستقبل پر نظر رکھی جائے اور اُن اُمیدوں اور توقعات کا تذکرہ کیا جائے جو اہل پشاور نے نومنتخب نمائندوں سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ پشاور 7 تحصیلوں کا مجموعہ ہے۔ اِن تحصیلوں میں پشاور سٹی مرکزی (اندرون شہر) جبکہ متھرا‘ شاہ عالم‘ چمکنی‘ بڈھ بیر‘ پشتہ خرہ اور حسن خیل تحصیلیں مضافاتی بیشتر دیہی علاقوں پر مشتمل آبادیاں ہیں اور یوں پشاور کی ہر تحصیل کی اپنی الگ ضروریات اور حل طلب مسائل ہیں۔ فیصلہ سازوں کو کم شرح پولنگ کے حوالے سے بھی غور کرنا چاہئے جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہر ووٹر کو بیک وقت 6 بیلٹ پیپرز جاری کئے جاتے تھے جس میں اُسے اپنی پسند کے جنرل کونسلر‘ یوتھ کونسلر‘ کسان کونسلر‘ خاتون کونسلر‘ اقلیتی نمائندے اور تحصیل چیئرمین کا انتخاب کرنا تھا۔ اِسی طرح پولنگ عملے کو ہر ووٹر کا شناختی کارڈ نمبر بیلٹ پیپر کے اجرأ سے پہلے لکھنا ہوتا تھا اور اُس کے انگوٹھے کا نشان بھی مذکورہ چھ بیلٹ پیپرز کی پشت پر لینا ہوتا تھا جس کے ووٹر کو اپنی پسند کے اُمیدوار کے نام کے سامنے مہر لگانا ہوتی تھی اور یہ پورا عمل مکمل ہونے کے لئے فی ووٹر تین سے چار جبکہ دن کے اختتام پر چار سے پانچ منٹ لگے کیونکہ انتخابی عملہ سارے دن کی مشقت سے تھک گیا اور اِس طرح اُس کی کارکردگی وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتی چلی گئی۔ یہی مرحلہئ فکر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs) کی ضرورت جانب بھی متوجہ کرتا ہے کہ اگر الیکٹرانک آلات کا استعمال کیا جائے تو ’آٹومیشن (automation)‘ کی وجہ سے نہ صرف پولنگ کی شرح (رفتار) بڑھ جائے گی بلکہ پولنگ کے عمل میں درکار انسانی محنت بھی کم ہو جائے گی اور کسی پولنگ مرکز کا نتیجہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے اگلے منٹ حاصل ہو سکے گا۔ الیکشن قواعد کے مطابق اگر کسی پولنگ مرکز کی حدود کے اندر ووٹر موجود ہوں تو جب تک وہ سب اپنا ووٹ نہ ڈال لیں اُس وقت تک پولنگ جاری رہے گی اور یہی وجہ تھی کہ پشاور کے کئی پولنگ مراکز پر رات نو دس بجے تک پولنگ جاری رہی جبکہ پولنگ ختم ہونے کا وقت شام پانچ بجے تھا۔ ایک ووٹر جب اپنا حق رائے استعمال کرنے یعنی ووٹ ڈالنے کے بعد انفرادی حیثیت میں اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے تو اُس کا کام ختم ہو جاتا ہے لیکن انتخابی عملے کی مشقت پولنگ جاری رہنے کے بعد گنتی کے عمل کی تکمیل اور انتخابی سازوسامان کی واپسی تک برقرار رہتی ہے۔ انتخابی عملے ہی کو نتائج کی مصدقہ نقول متعلقہ ’ریٹرنگ آفیسر (آر اُو)‘ کے دفتر میں جمع کروانی ہوتی ہیں اور وہیں اُسے انتخابات کے لئے جاری کردہ سازوسامان بھی واپس کرنا ہوتا ہے چونکہ انتخابات کا عمل ایک ہی وقت میں ہو رہا ہوتا ہے اِس لئے ٹریفک رش کے علاوہ ووٹوں کی کسی اعتراض کی صورت بار بار گنتی کے مراحل آسان نہیں ہوتے اور بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ پولنگ اہلکار فجر سے فجر تک جسمانی اور ذہنی مشقت و دباؤ سے گزر رہے ہوں۔ انتخابات کے نتائج‘ کسی نہ کسی کی جیت پر مبنی اعدادوشمار ہیں‘ جن کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل اور بنیادی اہمیت اِس بات کی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے جن سترہ اضلاع میں انتخابات ہوئے ہے وہاں پر ملے جلے نتائج آئے ہیں اور حکمران جماعت کی کارکردگی بھی اس ماحول میں کافی بہتر رہی جہاں مہنگائی اور دیگر مسائل کے باعث عوام کی رائے متاثر ہو رہی تھی عوام نے تحریک انصاف کو پھر بھی بڑی حد تک پذیرائی بخشی ہے جسے بلدیاتی انتخابی نتائج کی دوربین لگا کر آئندہ قومی انتخابات (دوہزارتیئس) کا منظرنامہ دیکھا جا سکتا ہے۔