ہمدردی کس سے کی جائے؟

خیبرپختونخوا میں سرکاری محکموں کا وجود اور اِن کی خدمات و کارکردگی کے حوالے سے عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات کس قدر پوری ہوئی ہیں‘ اِس سلسلے میں خاطرخواہ غوروخوض ضروری ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو صوبائی فیصلہ سازی میں تمام توانائیاں اور وسائل صرف اور صرف روزمرہ ضروریات پوری کرنے ہی میں خرچ (نذر) ہو جائیں گے۔ حالات اُلجھے ہوئے ہیں‘ جنہیں سلجھانے کی ضرورت ہے۔ اِس اختلافی نکتہئ نظر کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ توجہ فرمائیں کہ محکمہئ صحت کے ملازمین کی ایک تعداد ایسی ہے جو مطمئن نہیں  اور اِس عدم اطمینان سے ادارہ جاتی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ مذکورہ ملازمین کے مسائل کا تعلق تین بنیادی امور سے ہے۔ 1: ملازمین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو محکمانہ ترقیوں کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ ہونے کی شکایت کرتی ہے۔ 2: ملازمین کی ایک تعداد ایسی ہے جو ملازمت جاری رکھتے ہوئے اپنے تبادلے ایک شہر یا علاقے سے دوسرے علاقے میں کروانا چاہتی ہے اور 3: ملازمین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنی عارضی ملازمتوں کی حیثیت کو مستقل ملازمت میں تبدیل دیکھنا چاہتی ہے تاکہ اُسے مستقل ملازمین جیسی تنخواہیں اور مراعات حاصل ہو سکیں اور خاص بات یہ بھی ہے کہ مستقل ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں ہر سال خودبخود اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ عارضی ملازمین کا کہنا ہے کہ اُنہیں سالانہ اضافے کی صورت عشرعشیر ملتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ محکمہئ صحت ملازمین کے اِن تینوں دیرینہ مسائل کی وجہ سے علاج معالجے اور دیگر متعلقہ سہولیات فراہم کرنے والے حکومتی اداروں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے جبکہ امکان یہ بھی ہے کہ اپنے مطالبات کے حق میں ملازمین کے مختلف دھڑے ایک ہو کر احتجاج کی راہ اختیار کریں اور ایسی صورت میں (آئندہ مالی سال کے بجٹ سے قبل) حکومت سے زیادہ اُن عام آدمی (ہم عوام) طبقے کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں‘ جن کیلئے سرکاری علاج گاہیں ہی واحد ذریعہ ہیں۔تصور کریں کہ محکمہئ صحت سے تعلق رکھنے والے قریب سولہ ملازمین (ڈاکٹروں‘ پیرامیڈکس‘ نرسوں و دیگر عملے) نے انتظامی فیصلوں میں حق تلفی یعنی ’محکمانہئ ناانصافیوں‘ کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے جبکہ محکمہئ صحت سے متعلق قانونی چارہ جوئی کرنے یعنی محکمہئ صحت سے متعلق عدالتی امور کی پیروی (سماعتوں) کے لئے الگ شعبہ قائم نہیں اور یہی وجہ ہے کہ محکمے کے فیصلہ سازوں کو عدالت کی جانب سے طلبی کی صورت دیگر تمام ضروری و غیرضروری کام کاج (جملہ مصروفیات) ترک کر کے عدالتوں کے روبرو پیش ہونا پڑتا ہے اور چونکہ وہ قانونی تقاضوں اور ضروریات سے آشنا نہیں ہوتے اِس لئے محکمے کے مفادات کا دفاع کرنے میں کمی بیشی کے باعث یہ نقصان ہوتا ہے کہ ایک مقدمے کو حل کرنے کی کوشش میں دوسرے مقدمات کی صورت مراحل پیش آ جاتے ہیں کہ جب عدالت کسی ایک کیڈر کے ملازمین کو ریلیف دیتی ہے تو دیگر کیڈرز اُس عدالتی فیصلے کی بنیاد پر اپنے مطالبات لئے ’عدل کی زنجیر‘ ہلا دیتے ہیں! اِس صورتحال کا ایک اور زیادہ سنجیدہ و سنگین پہلو یہ ہے کہ جو ملازمین اپنے خلاف محکمانہ کاروائیوں (اعلامیوں) کو عدالت میں چیلنج کرتے ہیں‘ وہ عدالتی کاروائی کے دوران اپنی ملازمت پر حاضر بھی نہیں ہوتے  اِس کا منفی اثر سرکاری اداروں کی کارکردگی کو کس طرح متاثر کرتا ہے اور جب ہم کسی سرکاری ادارے کی کارکردگی کے متاثر ہونے کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اِس کا سیدھا سادا مطلب عام آدمی (ہم عوام) کی تکلیف و مشکلات ہوتی ہیں۔ اِس صورت میں اگر ہمدردی کی بھی جائے تو کس سے کہ جہاں ہر کوئی اپنے حصے کی قربانی دینے پر آمادہ نہیں ہے کہ بجائے یہ سوال پوچھا جائے کہ آخر اِس ملک و نظام نے ہمیں کیا دیا بلکہ دیکھنا چاہئے کہ ہم اِس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟