خیبر پختونخوا کے سترہ میدانی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئے۔ دو سالہ تعطل کے بعد صوبے میں بلدیاتی نظام جزوی طور پر بحال ہوا ہے۔ انتخابات مجموعی طور پر پرامن اور شفاف رہے۔ چونکہ ویلج اور نیبر ہڈ کونسلوں میں ہر گلی محلے کے امیدوار میدان میں ہوتے ہیں اور ان کے درمیان دھینگا مشتی کے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ صوبے کے 19پہاڑی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات دوسرے مرحلے میں مارچ میں متوقع ہیں۔ ان انتخابات کیآزادانہ اور منصفانہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تحصیل کونسلوں کی چیئرمین شپ کے مقابلوں میں حکمران جماعت کے حصے میں صرف چالیس فیصد نشستیں آئیں۔ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کے انتخابات میں بھی حکومت مخالف پارٹیوں نے کامیابیاں سمیٹیں۔عوامی نیشنل پارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی ملی ہے اسی طرح جے یو آئی نے بھی پشاور میٹروپولیٹن کی میئرشپ سمیت تین اہم کونسلوں میں کامیابی حاصل کی۔ بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو اگرچہ مجموعی طور پراکثریت ملی ہے لیکن صوبائی دارالحکومت کے انتخابی نتائج پی ٹی آئی کی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ حکمران جماعت نے گذشتہ آٹھ سالوں میں شہر کی تعمیر و ترقی کیلئے بہت سے کام کئے ہیں۔ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کا منصوبہ موجودہ صوبائی حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ جس کی بدولت شہریوں کو بہترین سفری سہولیات میسر آئی ہیں۔ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، باغات کی بحالی،نہروں کے کناروں پر حفاظتی پشتوں کی تعمیر سمیت دیگر عوامی منصوبوں کی تکمیل کے باوجود حکمران جماعت کی صوبائی دارالحکومت میں ناکامی کی واحد وجہ کمرتوڑ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت مندی کا شکار ہے۔ صنعتی طور پر ترقیافتہ ممالک میں بھی لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اثر ہر چیز پر پڑا ہے۔ ملکی ضرورت کی درآمدی اشیاء کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کو روکنا وفاقی اور صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ تاہم مارکیٹ کنٹرول میکینزم کے ذریعے مہنگائی کے عام آدمی پر پڑنے والے اثرات کو کم کیاجاسکتا ہے‘ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جعل سازی اور گرانفروشی میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے تنخواہ دار، متوسط اورغریب طبقہ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔دال، چاول، گھی، کھانے کا تیل، آٹا،سبزی، چکن، گوشت اور مصالحہ جات ہر امیر اور غریب کی روزمرہ ضرورت کی اشیاء میں شامل ہیں۔ جن کی قیمتوں میں روزانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ صرف قیمتوں میں اضافہ ہی نہیں ہورہا۔مارکیٹ میں نقلی اشیاء کی بھی بھرمار ہے اور یہ جعلی چیزیں بھی اصلی مال کے دام فروخت ہورہی ہیں۔۔صوبائی حکومت نے جہاں مختلف شعبوں میں اصلاحات کے لئے کافی قانون سازی کی ہے وہیں مجسٹریسی نظام کی بحالی کیلئے بھی قانون سازی کرے تو مارکیٹ کو مجسٹریٹوں کے ذریعے حکومت اپنے کنٹرول میں لاسکتی ہے جس سے ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور جعل سازی کو روکنے کے ساتھ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔عام انتخابات میں ابھی صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے۔ اگر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ابھی سے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو عام انتخابات میں بھی حکمران جماعت کو ٹف ٹائم مل سکتا ہے۔ اب لوگ سیاسی طور پر کافی باشعور ہوچکے ہیں وہ نعروں، وعدوں اور سیاسی اعلانات کے بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔