بلدیاتی انتخابات: آگے کی سوچ

انتخابی نتائج کے تاخیر سے اعلان کا سبب ’تکنیکی وجوہات‘ بتائی جا رہی ہیں لیکن ہر حلقے کے غیرسرکاری نتائج کا اعلان اُنیس دسمبر (پولنگ ڈے) کی شام ہی کو ہو چکا ہے اور کامیاب اُمیدوار مبارکبادیں وصول کر ہے ہیں جیسا کہ واضح ہے کہ تحصیل پشاور کے لئے میئر کی نشست جمعیت علمائے اسلام (ف) کے نامزد اُمیدوار حاجی زبیر علی جیت چکے ہیں اُنہوں نے تحریک انصاف کے اُمیدوار رضوان بنگش کے 50 ہزار 659 ووٹوں کے مقابلے 62 ہزار 388ووٹ حاصل کئے اور یوں 11 ہزار 729 ووٹوں جیسی غیرمعمولی برتری رکھتے ہیں اگر یہ برتری ایک ہزار ووٹوں سے کم ہوتی تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔ بہرحال اِس اہم نشست کے سرکاری نتیجے کا اعلان نہیں ہو رہا اور وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے بقول ”6 پولنگ اسٹیشنوں“ پر ہنگامہ آرائی کے باعث ووٹنگ کا عمل کئی گھنٹوں تک یا مکمل معطل رہا۔ اِس کے علاؤہ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپر (ووٹ کی پرچی) پر لگائی جانے والی مہر (stamp) گم یا چوری ہونے کی وجہ سے ووٹروں نے بیلٹ پیپرز پر انگوٹھے کے  نشانات لگائے جو قواعد کی رو سے ووٹ مسترد ہونے کی علامت ہے اور ایسے بہت سارے مسترد ووٹ بھی نتائج کے اعلان میں کسی مرحلے پر رکاوٹ بن سکتے ہیں۔  ضرورت کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنے کی ہے کہ تکنیکی امور کی آڑ میں نتائج کی تاخیر کا باعث نہ بنا جائے تو یہی پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مفاد میں بہتر ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 1: الیکشن کمیشن نے 19 دسمبر کے روز ہوئی پولنگ کے تمام نتائج تاحال جاری نہیں کئے اور 2: الیکشن کمیشن کی جانب سے ہر روز جن چند نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے اُس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی برتری بڑھ رہی ہے۔ شک و شبے سے بالاتر ہے کہ عوام نے تحریک ِانصاف کے مقابلے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے نامزد اُمیدواروں کو اپنے ووٹ کا زیادہ حقدار (اہل) سمجھا۔ اِس نتیجہئ خیال کے کئی دیگر پہلو بھی ہیں جیسا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے انتخابات کے لئے کارکنوں کو نامزد کرنے میں زیادہ محنت و مشاورت کے علاؤہ سے جماعتی ترجیحات (ہوم ورک) سے بھی کام لیا۔ دوسری طرف یہ پہلو بھی غورطلب ہے کہ کہیں عوام کی ایک تعداد نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلے جمعیت علمائے اسلام (ف) کو ”حقیقی حزب اختلاف“ تو نہیں سمجھ رہی؟ بلدیاتی ادارے اور اہلکار موجود ہیں‘ جن کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے عوام نے نمائندوں کا انتخاب کر دیا ہے اور اب کئی ایسے مراحل مکمل ہونے ہیں‘ جن کے بعد عوامی نمائندوں کی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہوا بلدیاتی نظام عملاً فعال ہو سکے گا جیسا کہ پشاور کی میٹرو پولیٹن انتظامیہ اور نئے ٹی ایمز کا قیام عمل میں لانا ہے جس کے لئے تمام تر تیاریاں پہلے ہی مکمل کر لی گئی تھیں۔ پشاور کی طرح دیگر کئی تحصیلوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کے سرکاری نتائج کا انتظار ہے تاکہ متعلقہ محکمہ ٹی ایم ایز کے قیام اور اِن کے ذمہ داروں کے ناموں پر مبنی اعلامیہ جاری کر سکے۔ پشاور کے چاروں ٹاؤنز اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے اثاثوں کی تقسیم کا مرحلہ بھی الگ سے درپیش ہے۔ افسروں اور ملازمین کی تقرریاں ہونی ہیں جبکہ دیگر انتظامی امور نومنتخب نمائندوں کی مرضی یا مشورے سے طے ہونے ہیں اور یہ سبھی انتظامی کام جلد از جلد مکمل ہونے چاہیئں تاکہ نومنتخب بلدیاتی نمائندے عوام سے کئے ہوئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے ہر قسم کے تبادلوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور متعلقہ محکمہئ بلدیات کو ’ٹی ایم ایز‘ کے قیام سے بھی روک دیا تھا لیکن اب جبکہ پولنگ جیسا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے تو حسب ِقانون پشاور میں ’6 ٹی ایم ایز‘ اور ایک کیپٹل میٹرو پولیٹین حکومت قائم ہو گی۔ اُنیس دسمبر کے روز ہوئی پولنگ کے سرکاری و غیرسرکاری نتائج کے مطابق پشاور کی 7 تحصلیوں میں 5 پر جمعیت علمائے اسلام (ف) جبکہ ایک تحریک انصاف اور ایک عوامی نیشنل پارٹی کے نامزد اُمیدواروں نے جیتی ہے۔ اِس تناظر میں تحریک انصاف کیلئے حسن خیل تحصیل اور عوامی نیشنل پارٹی کیلئے چمکنی تحصیل کی اہمیت کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں اور یہ دونوں جماعتیں چاہیں گی کہ وہ اپنی اپنی تحصیلوں میں ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کریں کہ پشاور کی دیگر تحصیلیں اُن کی مثال دیں۔پشاور کے دل میں تحریک ِانصاف کی محبت کا چراغ آج بھی روشن ہے‘ اگر پشاور سے صوبائی اسمبلی کی 14 نشستوں پر 11 اراکین صوبائی اسمبلی کا تعلق تحریک سے ہے اور پشاور کی قومی اسمبلی کی تمام یعنی پانچ کی پانچ نشستوں پر بھی تحریک ہی سے تعلق رکھنے والے کارکن براجمان ہیں تو کامیابی صرف ایک تحصیل (حسن خیل) سے کیوں ملی جبکہ سب سے اہم نشست پشاور کے میئر کی تھی جو جمعیت علمائے اسلام (ف) گیارہ ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے اپنے نام کر چکی ہے! تحریک انصاف کا ووٹ بینک اپنی جگہ موجود ہے اور جہاں جہاں تحریک انصاف کے ناراض کارکنوں نے بطور اُمیدوار انتخابات میں حصہ لیا وہاں کے نتائج کافی دلچسپ ہیں جیسا کہ پشاور کی سات تحصیلوں میں تیسرے سب سے زیادہ ووٹ کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ آزاد اُمیدواروں نے حاصل کئے ہیں! اُنیس دسمبر کے روز 63 تحصیلوں کیلئے انتخابات ہوئے تھے جن میں سے 47 کے نتائج کا الیکشن کمیشن اعلان کر چکا ہے جبکہ باقی ماندہ کا اعلان دوبارہ پولنگ یا دوبارہ گنتی (ووٹوں کے شمار) کے بعد کیا جائے گا۔ ذہن نشین رہے کہ کوہاٹ‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں (3 اضلاع) میں تین تحصیلوں کے انتخابات مختلف وجوہات کی بنا پر نہیں کروائے گئے۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ پشاور‘ خیبر‘ مہمند اور دیگر اضلاع میں جہاں جہاں‘اُنیس دسمبر‘ کے روز انتخابی مراکز پر ہنگامہ آرائی کی گئی یا پرتشدد واقعات ہوئے وہاں انتخابات کا انعقاد دوبارہ کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے کیلئے باقی ماندہ اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کیلئے سولہ جنوری کی تاریخ مقرر ہے تاہم اِس میں بالائی علاقوں کے موسمی حالات کی وجہ سے تبدیلی کا امکان ہے۔