خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ (اُنیس دسمبر) اپنی ذات و تخلیق میں سبق آموز (توجہ طلب) بھی ہے کہ ’پولنگ ڈے‘ کے لئے غیرمعمولی حفاظتی انتظامات کے باوجود تشدد کے واقعات رونما ہوئے‘ جو سیاست میں ’ عدم برداشت پر مبنی روئیوں‘ کی عکاس ہے۔ المیہ اپنی جگہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے ’برداشت‘ تحمل اور نظم و ضبط‘ کی تعلیم و تلقین سننے میں نہیں آتی بالخصوص ہر سیاسی جماعت نے انتخابات کے دن کے لئے الگ قسم کے گشتی دستے بنائے ہوتے ہیں جن کے ذمے مختلف پولنگ مراکز ہوتے ہیں اور یہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں طلب کئے جا سکتے ہیں! انتخابی سیاست کا یہ تاریک پہلو اپنی جگہ توجہ اور اصلاح طلب ہے۔ مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے انتخابی مرحلے کے دوران سترہ اضلاع میں سے ہر جگہ اکا دکا پُرتشدد واقعات ہوئے لیکن کئی مقامات پر ہوئے تشدد اِس انتہا کا ہوا کہ پانچ افراد کی ہلاکت جیسا ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ سیاست و انتخابات جان دینے یا لینے کا نہیں بلکہ حیات آفریں عمل ہونا چاہئے کہ اِس سے خوبیاں کی تدفین نہ ہو بلکہ اِن کا جنم ہونا چاہئے۔ انتخابات کے دوران کم سے کم 10 پولنگ مراکز کو نذر آتش کرنے جیسے بدنما واقعات بھی پیش آئے اور اِنہیں بھی باآسانی روکا جا سکتا تھا۔ بہرحال اِن واقعات اور تلخ تجربات پر غور اِس لئے بھی ضروری ہے تاکہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ایسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام ممکن بنائی جا سکے۔ اِس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے سربراہ نے خیبرپختونخوا (صوبائی) سربراہ سے تحریراً تفصیلات اور تجاویز بھی طلب کر رکھی ہیں۔ خوش آئند ہے سیاسی اور انتخابی فیصلہ ساز حق رائے دہی کے ساتھ عوام کی جان و مال کے تحفظ بارے بھی فکرمند (تشویش میں مبتلا) ہیں تو عدم برداشت پر مبنی رویئے صرف ادارہ جاتی اصلاحات یا غوروغوض سے درست نہیں ہوں گے۔انتخابی عمل اور جمہوریت پر نظر رکھنے والی ”فری اینڈ فیئر الیکشنز نیٹ (فافین)“ نامی غیرسرکاری تنظیم نے خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں انتخابی عمل کے منظم‘ قانونی اور شفاف قرار دیا گیا ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انتخابی قواعد و ضوابط کا خاطرخواہ خیال نہیں رکھا گیا۔ کسی انتخاب کی مذکورہ تین خصوصیات (منظم‘ قانونی اور شفافیت) اہم ہوتی ہیں اور الیکشن کمیشن اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تو یہ قطعی معمولی کامیابی نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور‘ بونیر‘ باجوڑ‘ صوابی‘ نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ کرک‘ چارسدہ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ٹانک ہری پور‘ مردان‘ بنوں‘ خیبر‘ مہمند‘ ہنگو اور لکی مروت میں اُنیس دسمبر کو ہوئی پولنگ کی مجموعی شرح 40 فیصد رہی لیکن 20 تحصیلیں ایسی ہیں جہاں خواتین کی شرح پولنگ 16.69 فیصد رہی جبکہ وہاں مردوں کے ڈالے گئے ووٹوں کی شرح قریب ستائیس (26.96) فیصد تھی۔ الیکشن قواعد کے تحت کسی انتخابی حلقے میں اگر خواتین کی پولنگ کی شرح اگر 10فیصد سے کم ہو تو وہاں پولنگ دوبارہ کروائی جاتی ہے لیکن خیبرپختونخوا کے سترہ اضلاع میں کسی بھی حلقے پر ایسی صورت پیش نہیں آئی کہ وہاں خواتین کی شرح پولنگ دس فیصد سے کم رہی ہو۔حالیہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق کچھ دلچسپ اعدادوشمار بھی سامنے آئے ہیں جیسا کہ نتیجے کا اعلاج کرنے کے بعد جب ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی گئی اور مسترد قرار دیئے گئے ووٹوں کی جانچ پڑتال ہوئی تو کئی مسترد ووٹ درست پائے گئے اور اِس وجہ سے انتخابی نتائج تبدیل کرنا پڑے جس کی وجہ سے سبھی جماعتوں کو فائدہ ہوا ہے۔ مسترد ووٹوں کے درست ہونے سے فائدہ اُٹھانے والوں میں تحریک انصاف سرفہرست ہے جس نے 8 تحصیلوں میں کامیابی حاصل کی جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے چھ‘ عوامی نیشنل پارٹی نے پانچ‘ مسلم لیگ (ن) نے دو اور پیپلزپارٹی و تحریک اصلاحات پارٹی نے ایک ایک جبکہ آزاد اُمیدواروں نے دو تحصیلوں میں کامیابی حاصل کی۔ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کی سب سے مثبت بات یہ ہے کہ اِس کے نتائج سبھی سیاسی جماعتوں نے قبول کر لئے ہیں اور کسی جماعت نے انتخابات کی شفافیت پر سوال نہیں اُٹھایا۔ جمہوریت کی روح بھی یہی انتخابات ہیں‘ جن سے متعلق قواعد و ضوابط اور بندوبست پر کسی ایک جماعت یا فریق کا دباؤ یا چھاپ نہیں ہونی چاہئے اور لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ’مایوس کن نتائج‘ پر پشاور سمیت صوبے کے چار اضلاع کی تنظیمیں تحلیل کر دی ہیں جن میں ضلع پشاور اور پشاور شہر کی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی نے پشاور میں مقبولیت و عروج دیکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُس کی قیادت کو انتخابی نتائج پر حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہو رہا ہے۔