ہر چند چناؤ کا رونق میلہ سمٹ گیا ہے‘مبار ک مبارک سلامت سلامت کی آوازوں کے بیچ بیچ کہیں کہیں سے میں نہ مانوں کا دھواں بھی اٹھتا نظر آ رہا ہے‘یہ بھی اس کھیل کا حصّہ ہے، باہر کی دنیا میں چناؤ کے نتیجے میں کوئی جیتتا ہے کوئی ہار جاتا ہے، جسے عوام کی پسندیدگی کی سند مل جائے وہی سرخرو ہو جاتا ہے،لیکن ہمارے ہاں ایسا کم کم ہوتا ہے یہاں کوئی ہارتا نہیں ہے، ایک فریق جیت جاتا ہے اور دوسرے فریق کے ساتھ دھاندلی ہو جاتی ہے، کئی بار تو یوں بھی ہوا ہے کہ سیشن کے پہلے حصے میں جیتنے والے کو نشست مل جاتی ہے اوروہ حکومت کا حصّہ بن جاتا ہے مگرپھر ہارنے والے کی اپیل کی شنوائی کے بعد کامیابی کا فیصلہ اس کے حق میں ہو جاتا ہے یوں دوسرے حصے میں وہ حکومتی نشست حاصل کر لیتا ہے، اب کے بھی آتش خفتہ میں سے کہیں کہیں کوئی چنگاری سلگتی دکھائی دے رہی ہے مگر اور ہی کچھ رو ز میں حالات واپس اپنی ڈگر پر آ جائیں گے، دن اور رات ایک لگے بندھے نظام کے تحت جانے کب سے ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں اور جانے کب تک رہیں گے البتہ ہم نے اپنے آپ کو منظم کرنے،کار دنیا چلانے کے لئے اور اپنی سہولت کے لئے انہیں ماہ و سال اور ہفتے کے سا ت دنوں میں تقسیم کر رکھا ہے، جنتریاں اور کیلنڈر بنا کرخود کو حساب کتاب کا پابند بنایا ہوا ہے اور چونکہ اب ہم اسی نظام کے ساتھ جی رہے ہیں گویا اس طرح جینے کے عادی ہو چکے ہیں اس لئے یہ نظام ہمارے شب و روز پر ہی نہیں اعصاب پر بھی سوار رہتا ہے اس سے ہٹ کر جینے کا اب کوئی تصور کہیں بھی نہیں ہے، اسی ناتے سال کے آخر میں ہم کیلنڈر بدل دیتے ہیں، اب تو خیر دیواروں پر کیلنڈر آویزاں کرنے کا زمانہ نہیں رہا مگر اب بھی بہت سے ممالک میں نہ صرف یہ رسم چل رہی ہے بلکہ بہت اہتمام سے دیدہ زیب کیلنڈر شائع کئے جاتے ہیں،ابھی کل تک تو جاپان کے کیلنڈرز کی دنیا بھر میں نمائش کی جاتی تھی شاید اب بھی کچھ علاقوں میں ہو رہی ہو۔ کیا کیا جائے ہم ہر نئے دن ایک نئے زمانے میں جی رہے ہوتے ہیں اورانگریزی سمیت مختلف زمانوں میں یہ روز مرہ سننے کو ملتا ہے کہ ”آج کا دن بہر حال ایک نیا دن ہے،“ سو ایک نیا دن اور اس کے نئے تقاضے مگر ٹائم وہی لگے بندھے چو بیس گھنٹے اس لئے کچھ اپناتے ہوئے کچھ چھوڑنا پڑتا ہے کہ پچیسواں گھنٹہ آج تک کوئی نہ تلاش سکا نہ ہی تراش سکا تو سال میں تیرھواں مہینے کہاں سے آئے گا، اس لئے گزشتہ کل کی کچھ بہت اچھی اقدار ہم سے چھوٹ جاتی ہیں اور ہمیں اظہر عنایتی کی طرح کہنا پڑتا ہے
راستو کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیو
اب نیا آدمی بہت مصروف ہو گیا ہے اسے ہمہ وقت دوڑتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے ہرشخص کو دیکھ کر یہی لگتا ہے جیسے اسے پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے،بڑا نقصان ہماری مجلسی زندگی کا ختم ہو نا بھی ہے وہ جو کبھی محاورتاََ کہا جاتا تھا کہ فلاں شخص اپنی ذات میں انجمن ہے، اس روز مرہ کے حوالے مختلف سہی مگر وہ جو غالب نے کہا ہے کہ
ہے آدمی بجائے خود اک محشر ِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
اس کا پرتو َ تو آج کے نئے آدمی کی خلوت اور تنہائی کی مصروفیات میں آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اور تو اور اب ہمارے سونے جاگنے کے اوقات تک وہ نہیں رہے جو کل تک ہو تے ہے، اس ضمن میں ایک لطیفہ گزشتہ دنوں یو بھی ہوا کہ میں نے کہیں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں بو علی سینا کا صبح سویرے جاگنے کے حوالے سے یہ قول لکھ دیا کہ سحر خیزی سے رزق میں اضافہ ہو تا ہے۔ تو میرے بہت ہی عزیز دوست ڈاکٹر واجد علی کا ترنت کمنٹ آ گیا، ”سر بو علی سینا کو نائٹ ڈیوٹی کے عذاب سے نہیں گزرنا پڑا ہو گا،“ ظاہر ہے اب یہ نائٹ شفٹ کا سلسلہ بھی نئے دور کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ ڈاکٹر واجد علی تو ڈاکٹر ہے اس کی نائٹ ڈیوٹی کی سمجھ تو آتی ہے مگر بے بدل شاعر تنویر سپرا کو بھی رات کی شفٹ سے شکایت تھی کہ ”مل کی نائٹ شفٹ میں میری ڈیوٹی لگا کر ’میرے آجر نے میری فطرت پہ ڈاکا ڈالا ہے، اس نے سنا ہے اور ٹھیک سنا ہے کہ رات تو آرام کے لئے بنائی گئی ہے لیکن چونکہ وہ دن بھر کی مزدوری کے بعد وہ رات سے یہی کہا کرتا تھا کہ
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
مگر نائٹ شفٹ میں ڈیوٹی کے بعد وہ اس مکالمہ سے بھی محروم ہو گیا تھا، اس لئے مان لیں کہ رفتہ رفتہ گزشتہ کل کے معمولات میں اب بہت فرق آ چکا ہے، ہمیں بہت کچھ سے دستبردار ہونا پڑاہے، میں نے کہا ہے نا کہ نئے دور کے نئے تقاضوں کے لئے جگہ بنانا پڑتی ہے اور اس طرح جو چیزیں ہم سے چھوٹ جاتی ہیں ان میں اچھی اقدار بھی شامل ہیں اس لئے کل کے بر عکس اب اس نئے دور میں بھلے سے اپنی ذات میں کوئی شخص ا نجمن ہو نہ ہواپنے آپ میں مگن ضرور ہو گیا ہے، اس کی اول و آخر دلچسپی اپنی ذات اور اپنے معمولات سے ہو تی ہے جسے نئے دور میں پرائیویسی کے نام سے پکارا جاتا ہے، اور پرائیویسی کے اس عفریت کی وجہ سے گزشتہ کل کی طرح دوست یار تو ایک رہے میٹھے اور پیارے رشتوں سے بھی ہمارا برتاؤ تکلف والا ہو گیا اور وہ جو کل تک ہفتوں بلکہ مہینوں ماموں چچا اور خالاؤں کے گھر رہنے کا جو ایک محبت بھرا سلسلہ تھا اسے اب ایک رات تک کے لئے بھی کوئی افورڈ نہیں کر سکتا کیونکہ ہماری یا پھر ان کی پرائیویسی متاثر ہو تی ہے، ایسے میں کسی سے کوئی کیا کہے بس اپنے کانوں میں خود اپنے شعر کی ہی سر گوشی کر نا پڑتی ہے۔
مکان دل میں گھٹن ہے کہ بڑھتی جاتی ہے
دریچے سینے کے کھولو کہ ّآ ئے جائے ہوا