بھارت میں دائیں بازوں کی کئی جماعتوں نے مذہبی اقلیتوں کے خاتمے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ہندو مذہبی جماعتوں کی تین روزہ کانفرنس میں بھارت کی 20 کروڑ مسلم اقلیت کو نشانہ بنایاگیا۔اترکھنڈ کے مذہبی شہر ہریدوار میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے منتظم نرسنگھانند کا کہنا تھا کہ ہندو گروپس اپنے آپ کو جدید اسلحہ سے لیس کریں۔تلواریں صرف سٹیج پر ہی اچھی نہیں لگتیں انہیں استعمال کرنا چاہئے۔ہندو رکشاسینا کے صدر سوامی پرابودھانند گری کا کہنا تھا کہ میانمار کی طرح ہماری پولیس، سیاست دانوں، فوج اور ہر ہندو کو اسلحہ اٹھانا چاہئے اور صفائی ابھیان کرنا چاہیے، اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیر کاجامہ پہنانے کے لئے کو ئی دوسر راستہ نہیں ریا،سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا کے سیکرٹری جنرل سادھوی اناپرنا نے بھی نسل کشی کے لئے اسلحہ اٹھانے کو مسئلے کا واحد حل قرار دیا۔اترکھنڈ کی ہندو کانفرنس کو بھارت کے تمام اخبارات نے نمایاں کوریج دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولرازم کا پرچار کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے مذہبی بنیادوں پر منافرت پھیلانے والے انتہا پسندوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی؟بھارت ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور وہ فخریہ انداز میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویدار ہے۔ وہاں ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان، بدھ مت کے ماننے والوں سمیت ہر مذہب، عقیدے، مسلک، زبان اور قومیت کے لوگ آباد ہیں۔ جب سے انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آئی ہے بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔ تاہم جمہوریت اور انسانی حقوق کی علمبردارمغربی اقوام نے بھارت سے وابستہ اپنے معاشی اور تجارتی مفادات کی وجہ سے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔خدشہ ہے کہ اترکھنڈ میں ہونے والی ہندو کانفرنس کے بعد ملک کے طول و عرض میں مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کی تازہ کاروائیاں شروع ہوسکتی ہیں۔بھارت کا بنیادی مسئلہ وہاں کے سات صوبوں سے اٹھنے والی آزادی کی تحریکیں ہیں۔ سکھوں نے اپنی الگ اور آزاد ریاست کے لئے ریفرنڈم کا آغاز کیا ہے۔ مسلمان، بنگالی، تامل اور دیگر اقوام بھی بھارت سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان تحریکوں کو دبانے کے لئے بھارتی حکومت نے دانستہ طور پر ہندوؤں کے شدت پسند گروپوں کو فعال کرنا شروع کردیا ہے۔ حق خود ارادیت کے لئے گذشتہ سات دہائیوں سے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کو انتہاپسند اور بنیاد پرست قرار دے کر ان کے خلاف کاروائیاں کی جارہی ہیں۔ نو لاکھ بھارتی فوج نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ریاستی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والی اسلامی ممالک کی تنظیم کے وزارتی اجلاس میں بھی اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق دیا جائے۔ بھارت کو یقین ہے کہ خود ارادیت کا حق دیا گیا تو کشمیری اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دیں گے اس بنیاد پر مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ریاست جبرو استبداد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی طریقہ تقسیم ہند سے پہلے بھی بھارت کی ہندو اکثریت نے اپنایاتھا مگر وہ الگ اور آزاد اسلامی ملک پاکستان کو معرض وجود میں آنے سے نہیں روک سکے۔ وہ دن دور نہیں جب بھارت کی دیگر مذہبی اقلیتیں بھی اپنا جداگانہ تشخص قائم کرنے میں کامیاب ہوں گی۔