بھارت،مسلمانوں کا مقتل 

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے کے دعویداربھارت میں اس وقت جس طرح مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مہم جاری ہے اس کاتازہ ترین ثبوت گذشتہ دنوں بھارتی انتہاپسند جماعت کے ایک حالیہ اجلاس میں کھل کرمسلمانوں کو قتل کی دھمکیاں اور اس پر بھارت سرکار کی مجرمانہ خاموشی ہے تقسیم وطن کے بعد جب مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد نے بھارت  میں ہی رہنے کو ترجیح دی، وہ فر قہ پرستوں کی نظروں میں کھٹکنے لگے تھے۔ آج بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ مودی کے دَور میں شدت آگئی ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان کا ہمدرد اور پاکستانی کہہ کر ان کی وفاداری پر شک کیا گیا، فسادات ان کا مقدر بن گئے لیکن مودی کی آمد کے بعد مسلمانوں کو غدار کہا جانے لگا اور”گولی مار و“ اور”پاکستان جاؤ‘ کے نعرے لگنے لگے۔ پہلے دَورمیں کھان پان اور رہن سہن پر پابندی کے ساتھ ہندوانتہاپسندوں کانزلہ مویشی پالنے والے ڈیری فارم کے مسلم کسانوں اور بیف کا کاروبار اوراس کا استعمال کرنے والوں پر گرا یوپی میں لوجہاد اور تبدیلی مذہب قانون کا شوشہ چھوڑا گیا، رومیو سکواڈ تشکیل دیا گیا جس کی پیروی بی جے پی کی دوسری ریاستوں نے بھی کی۔ اسی دوران سوشل میڈیا کے ذر یعے مسلمانوں پر جھوٹے الزامات لگا کر ان کی دکانوں اورکاروبار کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا اور پھیری والوں کا ہندوعلاقوں میں داخلہ ممنوع قرارپایا۔ 2019ء کے الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد مودی اور اس کے گماشتوں کو کْھل کر انتہاپسندانہ ایجنڈے پر عمل کرنے کا موقع ملا۔ مودی کی دوسری تا جپوشی کے تین ہفتے بعد ’جے شری رام‘ کے نعرے کو سیاسی ہتھیار بناکر قتل وغارتگری کا بازار گرم ہوا۔ لوجہاد میں زیادہ کامیابی نہ ملنے پر اسے ”ریورس گیئر“میں ڈالتے ہوئے ہندو نوجوانوں کو لالچ دے کر مسلم لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانسنے اورانہیں ہندو بنانے کا کھیل رچا گیا اس میں بھی ناکامی ہاتھ آئی تو کووڈ کے زور پر ملک میں اْس کے پھیلاؤکے لئے دہلی کے عالمی تبلیغی اجتماع میں شامل بیرونِ ملک کے ممبروں کو ذمہ دار ٹھہرا یا گیامودی حکومت بھی مسلمانوں کو پر یشان اور ہراساں کرنے میں پیچھے نہیں رہی۔ طلاق ثلاثہ  اور سپریم کورٹ کے ذریعے ر ام مندر کے حق میں فیصلہ دلواکر حکومت نے مسلمانوں پر واضح کردیا کہ بھارت میں ر ہنا ہے تو بغیر کسی شہری حقوق ومطالبات کے اکثریت کا تابع بن کر رہنا ہوگا۔“این آر سی اور شہر یت (ترمیمی) قانون اسی کا مظہر ہے جس کی بدولت لاکھوں آسامی مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں یہ  ایک امتیازی قانو ن ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی اوقات بتانا  اور متنبہ کرنا ہے کہ نیوانڈیا میں دوسری اقلیتوں کے مقابلے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے بھارتی مسلمانوں کو اس تحریک کے احیا کیلئے ایک طویل مدتی حکمتِ عملی تیار کرنی ہوگی۔ یہ کام آسان نہیں ہوگا اس کیلئے بڑے صبروتحمل اور عزم کی ضرورت ہے  بات سی اے اے پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں، کی طرح مسلمانوں کو اورکئی آزمائشوں سے گزرنا ہوگا کیونکہ جب تک مودی اور بی جے پی کا راج ر ہے گا مسلمانوں کو چَین کا سانس نصیب نہیں ہوگا۔ ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے چھ دسمبر کو متھرا کی عید گاہ میں مورتیاں رکھے جانے کی دھمکی، گیدڑ بھپکی نہیں وارننگ تھی۔ہماری دانست میں بی جے پی کا اگلا ہدف متھرا کی عید گاہ ہی ہوگابھارتی ریاست یوپی کے  نائب وزیر اعلیٰ موریہ کا عید گاہ اور کرشن جنم بھومی سے متعلق بیان، مودی کی جانب سے کاشی وشوناتھ کوریڈور کا افتتاح کرتے وقت اورنگ ز یب کا حوالہ اور یوگی کا متھر ا سے’جن وشواس یا ترا‘ کا آغاز اس کا اشاریہ ہے کہ2022ء میں اگر بی جے پی اقتدار بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو جلد یا بدیر متھرا کی عیدگاہ اوراس کے بعد کاشی کی مسجد کو نشانہ بنایا جائے گا اوربھارتی مسلمانوں کے لئے پور ے ملک کو ایک ایسامقتل بنادیا جائے گا جہاں ہندوانتہاپسند ان کی نسل کشی میں مکمل طورپرآزاد ہوں گے اس وقت بھی بھارت مسلمانوں کی قتل گاہ میں تبدیل ہوچکاہے بدقسمتی سے پاکستان کے علاوہ باقی تمام مسلمان ممالک نے مظلوم ومقہور بھارتی مسلمانوں کو یکسر نظرانداز کیاہواہے خاص طورپرعرب ممالک جس طرح بھارت کے ساتھ تعلقات کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہیں اس کے بعد فی الوقت بھارتی مسلمانوں کو انتہاپسندوں کے رحم وکرم پررہناہوگابھارتی مسلمان اس وقت دنیا کی مظلوم ترین اقلیت بن چکے ہیں کیونکہ پوری دنیا نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں کہیں بھی اس کی مثال نہیں ملتی کہ راتوں رات لاکھوں شہریوں کو غیر ملکی قراردلواکر اجتماعی جیلوں پرمشتمل کیمپوں میں محبوس کردیاجائے یہ سب کچھ آج بھارت میں ہورہاہے۔