قدرتی آفات سمیت کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی ادارے قائم ہیں ایسے ہی ایک خیبرپختونخوا کے اِدارے ’پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA)‘ کی جانب سے موسم سرما کے لئے ’ہنگامی منصوبہ بندی‘ پر مبنی حکمت ِعملی تشکیل دی گئی ہے اور اِس ”ونٹر کنٹی جینسی پلان“ کے تحت جہاں پشاور‘ چارسدہ‘ مردان‘ نوشہرہ‘ صوابی‘ لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع میں دھویں اور دھند کی موسمیاتی پیشنگوئی کو مدنظر رکھتے ہوئے امدادی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کی ہے وہی تجویز دی ہے کہ خیبرپختونخوا میں موسمیاتی تبدیلیوں بالخصوص ”ہوا کے معیار“ پر نظر رکھنے کے لئے نگران مراکز (مانیٹرنگ سٹیشن) بنائے جائیں۔اگرچہ موسمیاتی درجہ حرارت‘ بارش و زلزلہ پیما مراکز موجود ہیں جن میں قیام پاکستان سے قبل قائم ہونے والے مراکز اور سہولیات سے تاحال استفادہ کیا جا رہا ہے تو ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ موسموں کی شدت اور اِن کے بدلتے ہوئے مزاج کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ اِس سلسلے میں کئی ایک عالمی مثالیں موجود ہیں جہاں موسمیاتی علوم و تحقیق کو نہ صرف قومی کلیدی فیصلہ سازی بلکہ زرعی شعبے میں پیش نظر رکھا جاتا ہے اور جہاں ایسا نہیں کیا جاتا اُن کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ وہ وہاں کس قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔خیبرپختونخوا میں تحفظ ماحول کا ادارہ ’(انوئرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی)‘ سال 1989ء میں قائم ہوا جس کے انتظامی امور 1992ء میں پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کر دیئے گئے جو صوبائی سطح پر ہونے والے ترقیاتی عمل کا ماحول کے نکتہئ نظر سے جائزہ لینے کی سعی تھی۔ سال 2001ء میں اِس شعبے کو الگ سے خصوصی ادارے کی شکل دیدی گئی۔ ایک سو سے زیادہ مستقل ملازمین اور چوالیس رکنی ملازمین کا دستہ جو مختلف حکومتی محکموں میں تعینات کیا گیا ہے۔ اِس بات کا اندازہ جاری مالی سال 2021-22ء سے متعلق مجوزہ ترقیاتی حکمت عملی سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ایک جاری منصوبے کے لئے 9.285 ملین مختص کئے گئے جبکہ 2 نئے ترقیاتی منصوبوں سمیت کل 3 منصوبوں کیلئے 5 کروڑ (پچاس ملین) روپے مختص کئے گئے جو کل ترقیاتی بجٹ کا 0.02 فیصد حصہ بنتا ہے! ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے 34 محکموں کے لئے سالانہ آمدن و اخراجات کے میزانیئے (بجٹ) میں مالی وسائل مختص کئے جاتے ہیں اور چونتیس میں سے سولہ صوبائی ادارے (شعبہ جات) ایسے ہیں جن کے لئے کل ترقیاتی بجٹ کا ایک فیصد سے کم حصہ مختص کیا گیا ہے اور بدقسمتی سے ماحول اِن میں شامل ہے۔سراسر گمراہ کن تاثر ہے کہ ”ماحول“ صرف ترقی یافتہ ممالک کا مسئلہ ہے‘ جہاں آسودگی اور خوشحالی کا دور دورہ ہے! جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماحولیاتی توازن میں بگاڑ سے غربت و بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے جبکہ غذائی عدم تحفظ اپنی جگہ موجود ہے! فیصلہ سازوں کو متوجہ ہونا پڑے گا کہ کرہئ ارض پر بسنے والی مخلوقات میں صرف انسان ہی واحد ایسا ”ذی شعور“ ہے جو قدرت کے بنائے ہوئے موسمیاتی توازن اور تنوع میں بگاڑ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنی اِس صلاحیت و اختیار کا ”بھرپور“ استعمال بھی کر رہا ہے۔ اہل زمین کو موسموں کے مطابق اپنے آپ اور اپنے معمولات کو ڈھالنا پڑے گا۔ اپنے رہن سہن کو ماحول دوست بنانے کے ساتھ اِس پر کڑی نظر رکھنا پڑے گی کہ کس طرح گیس‘ کوئلے‘ لکڑی یا ایندھن جیسے ذرائع کا غیرمحتاط استعمال کرنے کی وجہ سے کرہئ ارض کا درجہئ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ رواں ماہ ’نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ نے پاکستان کے ماحولیاتی منظرنامے کے بارے رپورٹ جاری کی جس میں چھوٹی بڑی صنعتوں‘ کارخانوں اور گاڑیوں سے اُگلنے والے دھویں اور کیمیائی مادوں سے آلودہ پانی کی بنا تطہیر اخراج کی جانب توجہ دلائی۔ رپورٹ میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو آلودہ کرنے اور اِس پانی کے ذخیرے کی خاطرخواہ اہمیت کا احساس نہ کرنے پر افسوس کا اظہار بھی شامل ہے۔ موسمیاتی اور اَرضیاتی ماہرین فیصلہ سازوں کے تجاہل عارفانہ سے فکرمند ہیں جس کا ایک پہلو یہ عمومی طرز عمل ہے کہ زیرزمین صاف و شفاف پانی کے ذخیرے کو موٹرگاڑیاں دھونے (سروس سٹیشنوں) پر استعمال کیا جاتا ہے اور زیرزمین ذخیرے (خزانے) قیمتی پانی حاصل کرنے کے بعد جس لااُبالی انداز سے اُسے آلودہ کر کے بنا تطہیر بہایا جا رہا ہے تو اِس سے ملک کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں کے لئے مستقبل میں صاف پانی کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہو جائے گا۔ انسانی عقل‘ شعور‘ تعلیم‘ تجربہ‘ مشاہدہ اور اپنی بقا کی خواہش اُس وقت تک پوری (محفوظ) نہیں ہوگی جب تک موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھتے ہوئے ایک ایسا موافق ”احتیاطی طرز زندگی“ اختیار نہیں کیا جاتا جو فطرت کے بنائے ہوئے تنوع یا توازن کے برقرار رہنے کا باعث بنے۔