تل ابیب: اسرائیل کے سخت طلاق کے قانون کی وجہ سے ایک آسٹریلوی شہری اگلے 8000 سال تک وہاں قید ہے۔
مقامی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر وہ ملک چھوڑنا چاہتا ہے تو بچوں کی پرورش کے لیے کروڑوں روپے ادا کرنے ہوں گے، ورنہ اسے یہیں رہنا پڑے گا۔
اسرائیل میں طلاق سے متعلق ایک کیس پوری دنیا میں موضوع بحث بن گیا ہے۔ اس معاملے پر خاص طور پر آسٹریلیا میں اسرائیل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دراصل آسٹریلوی شہری نوم ہپرٹ پر اسرائیل چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کیونکہ ان کی بیوی نے ان کے خلاف طلاق کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
پابندی کی مدت اور اسرائیلی عدالت کی طرف سے مقرر کردہ رقم کے بارے میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔
خبر کے مطابق اسرائیلی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نوم ہپرٹ 31 دسمبر 9999ء تک ملک نہیں چھوڑ سکتے۔ یعنی ایک طرح سے انہیں اگلے 8000 سال تک‘قید’میں رہنا پڑے گا۔
عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ہپرٹ اس سزا سے بچنا چاہتا ہے، تو اسے 30 لاکھ ڈالر بچوں کی پرورش کے لیے ادا کرنا ہوں گے۔
عدالت نے کہا ہے کہ اگر آسٹریلوی شہری 30 لاکھ ڈالر ادا کرتا ہے تو اسے سزا سے رہائی مل سکتی ہے ورنہ اسے اسرائیل میں ہی رہنا پڑے گا۔
یہ معاملہ برطانوی صحافی ماریان عزیزی نے اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کا مسئلہ بہت سے آسٹریلوی شہریوں کو پیش آ سکتا ہے، اس لیے اس کے بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس حوالے سے سفارت خانے سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔یہ شخص، جس کا تعلق آسٹریلیا سے ہے، 2012ء میں اپنے دو بچوں کے ساتھ اسرائیل میں رہنے آیا تھا۔ اس کے بعد اس کی بیوی نے اس کے خلاف اسرائیلی عدالت میں طلاق کا مقدمہ دائر کر دیا۔
عدالت کا فیصلہ سن کر شخص کے ہوش اڑ گئے۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی اس سزا پر سوالات اٹھائے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نوم ہپرٹ چھٹیوں اور کام کے لیے بھی باہر نہیں جا سکتے۔
نوم ہپرٹ نے آسٹریلوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا،‘مجھ جیسے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں مقامی طلاق کے قوانین کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے سخت قانون کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بیداری پھیلانے کی ضرورت ہے۔