نفرت کے سوداگر

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی حدبندی ڈیورنڈ لائن کی تاریخ 128سال پرانی ہے۔یہ معاہدہ 12نومبر 1893 کو افغانستان اور برطانیہ کے درمیان طے پایاتھا۔ معاہدے پر افغانستان کے امیر عبدالرحمان اور برطانوی ہند کے سیکرٹری سر مارٹیمر ڈیورنڈ نے دستخط کیے تھے۔اسی حوالے سے اسے ڈیورنڈ لائن ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2640 کلومیٹر طویل سرحدواقع ہے اس کا گیارہ سو کلومیٹر حصہ بلوچستان اور پندرہ سو کلو میٹر خیبر پختونخوا کے ساتھ منسلک ہے۔امیر عبدالرحمان کی وفات کے بعد 21 مارچ 1905 کو برطانیہ اور افغانستان کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا۔ جس میں 1893کے معاہدے کی توثیق کی گئی۔اینگلو افغان تیسری جنگ کے بعد 8 اگست 1919 کو افغانستان اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے تیسرے معاہدے کی دفعہ پانچ میں ڈیورنڈ لائن کو ہی بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا گیا۔1919 کے سمجھوتے کے تحت ڈیورنڈ لائن کو پہلے بادشاہ کی زندگی تک برقرار رکھنے کی شرط ختم کرتے ہوئے باضابطہ بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا گیا۔ 22نومبر1921 کو کابل میں برطانیہ اور افغانستان کے مابین دوستانہ تعلقات کے معاہدے میں بھی 1919کے معاہدے کی توثیق کی گئی۔اس معاہدے کی دفعہ دو میں کہا گیا ہے کہ فریقین ہندوستان اور افغانستان کے درمیان وہی سرحد تسلیم کرتے ہیں جو 1919کے معاہدے کی شق نمبر آٹھ میں درج ہے۔ڈیورنڈ لائن کے معاہدے کے تحت واخان، وادی کیلاش کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، مومند، لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ لیکر افغانستان کو دیاگیا۔ استانیہ،چمن، نوچغائی، وزیرستان، بلند خیل،کرم، باجوڑ، سوات، بونیر، دیر، چلاس اور چترال پر افغانستان اپنے دعوے سے مستقل طور پردستبردار ہو گیا۔دستاویز کے مطابق 14 اگست 1947ء کوتقسیم ہند اور پاکستان کی آزادی کے بعد برطانوی ہند کی جانشین ریاست کے طور پرپاکستان معاہدہ کے تحت افغان حکومت کو مالی معاوضہ ادا کرتا رہا۔ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی شق 2 اور 3 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ افغانستان کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کے اس پار کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔پاکستان نے حال ہی میں دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کیلئے ڈیورنڈ لائن پر خار دار باڑ لگانے کا کام شروع کیاتھا۔ جس کا90 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے۔گذشتہ روز ڈیورنڈ لائن پر افغان فورسز کی وردیوں میں ملبوس چند شدت پسندوں نے سرحدی باڑ کی تنصیب میں رکاوٹ ڈالی۔پاکستان نے باڑ کی تنصیب میں رکاوٹ ڈالنے معاملہ کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ اٹھایاہے۔ جب پاکستان نے طورخم کی سرحد پر گیٹ تعمیر کیاتو پوری دنیا نے طورخم بارڈر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا ہے۔افغانستان کی موجودہ کشیدہ صورتحال میں شرپسندوں کی طرف سے باڑ کی تنصیب میں رکاوٹ طالبان حکومت کو بدنام اور پاکستان کو افغانوں سے بدظن کرنے کی دانستہ اور سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتی ہے۔طالبان حکومت کو معاملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنی چاہئے۔افغانستان کی موجودہ غیر یقینی صورتحال میں پاکستان ہی افغان عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑا ہے۔ ادویات، خوراک اور دیگر امدادی سامان کی فراہمی کے ساتھ پاکستان نے بھارت سمیت تمام ممالک کیلئے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں تاکہ مصیبت کی اس گھڑی میں افغان عوام کی مدد کی جاسکے۔ اسلام آباد میں ہونے والی اسلامی ممالک کی تنظیم کے اجلاس میں بھی افغانستان کی امداد کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر بحث کی گئی۔افغانستان کی امداد اور بحالی کیلئے ٹرسٹ فنڈ قائم کیاگیا۔ اس مرحلے پر پاکستان اور افغان عوام کے درمیان نان ایشو پر نفرت پیدا کرنے والے افغانستان اور افغان عوام کے دشمن ہیں جن کا کھوج لگاکر کیفرکردار تک پہنچانا طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے۔تازہ ترین پیش رفت کے مطابق  اس طرح کے واقعات سے بچنے کیلئے کوئی مکینزم بھی باہمی رضامندی  سے تشیکل دیا گیا ہے، اس امر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے والی قوتیں وقتی طور پر کمزور تو ہوگئی ہیں تاہم وہ اب بھی موجود ہیں اور دونوں ممالک کو اس حوالے سے ہوشیار رہنا پڑیگا۔