اُنیس دسمبر دوہزار اکیس: خیبرپختونخوا کے 17اضلاع کی 63 تحصیلوں میں مقامی حکومتوں کے قیام کے سلسلے میں انتخابات کے پہلے مرحلے میں 47 تحصیلوں کے سرکاری نتائج کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سترہ جبکہ تحریک انصاف نے بارہ تحصیلوں میں ’چیئرمین شپ‘ کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ تحصیل پشاور کیلئے حاجی زبیر علی (جے یو آئی ف) کو باسٹھ ہزار تین سو اٹھاسی جبکہ رضوان بنگش (تحریک انصاف) کو پچاس ہزار چھ سو اُنسٹھ ووٹ ملے اگرچہ 6 پولنگ مراکز پر تشدد کاروائیوں (نقص امن) کے باعث الیکشن کمیشن نے انتخابی نتیجے کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن گیارہ ہزار سے زائد ووٹوں کی فیصلہ برتری سے جمعیت کی انتخابی کامیابی شک و شبے سے بالاتر یقینی ہے۔ پشاور کی باقی ماندہ چھ تحصیل چیئرمین کی نشستوں میں سے جے یو آئی (ف) نے چار نشستیں جبکہ پی ٹی آئی اور اے این پی نے ایک‘ ایک نشست جیتیں جبکہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں نے سات تحصیلوں کی چیئرمین شپ حاصل کی۔ مجموعی طور پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے تحصیل کونسل چیئرمین کی چھ‘ مسلم لیگ (ن) نے تین‘ جماعت اسلامی‘ پیپلز پارٹی اور تحریک اصلاحات پاکستان نے ایک‘ ایک نشست جیتی۔بیس دسمبر دوہزاراکیس: وزیر اعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں امیدواروں کے غلط انتخاب کو تحریک انصاف کی خراب کارکردگی کی ”بنیادی وجہ“ قرار دیا اور کہا کہ پہلے مرحلے میں غلطیاں کیں اور اس کی قیمت ادا کی۔ دوسرے مرحلے اور ملک بھر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لئے حکمت عملی کی نگرانی خود کروں گا۔ چوبیس دسمبر دوہزار اکیس: وزیراعظم نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں اہلیت کے برعکس خاندانوں میں ٹکٹ دیئے جانے کی شکایات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کی ملک بھر میں تنظیموں تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات کے بقول ”اگر تحریک انصاف کی سیاست متاثر ہوتی ہے تو دراصل یہ پاکستان کی سیاست متاثر ہونے کے مترادف ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی خاندانی سیاست والی جماعت نہیں۔اُمید یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد ’تحریک انصاف‘ زیادہ چمک دمک اور کارکنوں کے حمایت کے سبب زیادہ پروقار و پراعتماد انداز سے دوسرے انتخابی مرحلے میں اُن سیاسی مخالفین کا سامنا کرے گی اور یہی بات تحریک انصاف کو عصری جماعتوں سے ممتاز بناتی ہے کہ شروع دن سے کا نعرہ ’موروثیت اور مفادات‘ سے پاک سیاست کا رہا ہے تاہم اِس خواب کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تحریک اپنی غلطیوں کو تسلیم کر رہی ہے اور مرکزی قیادت کا کھلے دل سے حقیقت و شکست کو تسلیم کرنا بھی اِس اَمر کی عکاسی کرتا ہے کہ تحریک واحد ایسی جماعت ہے جس میں 1: ’خوداحتسابی‘ عملاً زندہ ہے اور 2: تحریک خاندانی سیاست کو اپنے نظریئے کی موت سمجھتی ہے۔ایسے میں کارکنوں سے قریبی رابطہ اور ان کی رائے سے استفادہ کرنا ضروری ہوجاتاہے۔اس مقصد کیلئے مناسب ہے کہ وزیراعظم سٹیزن پورٹل کی طرز پر ’کارکن پورٹل‘ کا آغاز کیا جائے جس کے ذریعے پارٹی کے کارکن کسی انتخابی حلقے یا اپنے حلقوں سے منتخب ہوئے یا متعلقہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی کارکردگی کے بارے خیالات و شکایات کا اندراج کر سکیں۔جمہوریت کی بنیاد انتخابات اور انتخابات کا مقصد حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی صورت ’چیک اینڈ بیلنس‘ کا نظام قائم کرنا ہوتا ہے۔ اگر تحصیل پشاور سمیت خیبرپختونخوا کی اکثر تحصیلوں پر ’حزب اختلاف‘ کی جماعتیں کامیاب ہوئی ہیں تو یہ نتیجہ اِس لحاظ سے باعث ِخیروبرکت ہے کہ مقامی حکومتوں کو مالی وسائل کی فراہمی اور اِن کی کارکردگی پر صوبائی حکومت کڑی نظر رکھے گی اور کسی بے قاعدگی کو جماعتی مصلحت کی وجہ سے درگزر نہیں کیا جائے گا۔ اِسی طرح حزب اختلاف پر مبنی مقامی حکومت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے غلطیوں سے ہر ممکنہ حد تک گریز کرے گی تاکہ حزب اقتدار کے ہاتھ اُس کی کوئی کمزوری نہ لگے۔ جمہوریت کا دوسرا نام ایک ایسا نظام ہے جس میں عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں اور اگر آسانیاں ہی مطلوب و مقصود ہیں تو پھر اِس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کون جیتا اور کون ہارا۔