سی پیک کے تحت اب تک بجلی کے 5320 میگا واٹ کے منصوبے لگائے جاچکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں ٹرانسمیشن کی صلاحیت سے زائد بجلی دستیاب ہوگئی ہے لہٰذا اس کی گنجائش کی ادائیگیوں اور پاور پلانٹس کے قرضوں کی واپسی کیلئے پاکستان اپنے اندر صلاحیت ہی پیدا نہیں کرسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے چین کے ساتھ بجلی پلانٹس کی ادائیگیوں کے حوالے سے بات چیت شروع کردی ہے۔ چھبیس اکتوبر کو کہا گیا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان نے چینی بینکوں اور کمپنیوں سے بات کرنے کے بجائے براہئ راست چینی حکومت سے بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔اقتصادی تحفظ و سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ قومی قرضوں کا بوجھ کم کیا جائے اور صرف اِسی پاکستان کے پاس اس قدر وسائل موجود ہوں گے کہ وہ اِنہیں دیگر ترقیاتی شعبوں پر خرچ کر سکے۔ قابل ذکر پیشرفت ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران بائیس مئی تک روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں بہتری نے ملکی قرضوں کے حجم پر مثبت اثرات مرتب کئے تھے اور وہ ستاسی اعشاریہ چھ فیصد سے کم ہوکر جی ڈی پی کے تراسی اعشاریہ پانچ فیصد حصے کے برابر تک کم ہوگئے تھے مگر مالی سال کے آغاز پر روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ سے یہ فائدہ تقریباً زائل ہوچکا ہے بلکہ روپے کی قدر تاریخ کی نئی کم ترین سطح پر پہنچنے کی وجہ سے قرضوں کا حجم ستاسی اعشاریہ چھ فیصد سے بھی تجاوز کرچکا ہے۔ اب سٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود میں ڈھائی فیصد اضافے کے بعد پالیسی ریٹ 9.75ہونے سے قرضوں پر سود میں بھی اسی شرح سے اضافہ ہوگا۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال دوہزاراکیس میں ملک کے مجموعی قرضے 47 ہزار 829 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ جس میں ملکی قرضہ 26 ہزار 265 ارب روپے‘ بیرونی قرضہ 12 ہزار 432 ارب روپے‘ آئی ایم ایف کا قرضہ 1 ہزار 161 ارب روپے ہے۔ حکومت نے مقامی سطح پر بھی قرضے لئے ہیں جس کی وجہ سے مقامی کرنسی میں لئے گئے قرضوں میں چھیاسی فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بیرونی قرض میں دس اعشاریہ آٹھ فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے اور یہ چھیاسی ارب چالیس کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔ اپریل دوہزاراکیس میں پاکستان نے دو ارب پچاس لاکھ ڈالر کے یورو بانڈ کا اجرا کیا اور دواعشاریہ ایک گنا زیادہ پیشکش موصول ہوئی۔ یہ پاکستان کی طرف سے جاری ہونے والا قرض کا سب سے بڑا بانڈ تھا۔ مالی سال دوہزار اکیس میں حکومت نے چھ اعشاریہ نو ارب ڈالر کا قرض واپس کیا جبکہ دوہزاربیس میں 9 ارب ڈالر کا قرض واپس کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ غیر ملکی قرض پر ڈیڑھ ارب ڈالر کا سود بھی ادا کیا گیا تھا۔ پاکستان کو اس سال تیئس ارب ڈالر کے غیر ملکی زرِمبادلہ ذخائر کی ضرورت ہے (جو پاکستان کے مجموعی بیرونی قرض کے اڑتیس فیصد حصے کے برابر ہے) تاکہ وہ اپنی غیر ملکی ادائیگیوں کو جاری رکھ سکے۔ اس مقصد سے پاکستان بارہ ارب ڈالر ترسیلاتِ زر جبکہ بقیہ تقریباً گیارہ ارب ڈالر بیرونی مارکیٹ سے حاصل کرنے کا خواہشمند ہے مگر اس قرض سے پہلے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے پروگرام کی منظوری ضروری ہے۔ آئی ایم ایف سے منظوری ملنے کے بعد پاکستان اپنی زرِمبادلہ کی طلب کو پہلے سستے قرضے فراہم کرنے والے اداروں مثلاً عالمی بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے رجوع کرے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان تقریباً تین ارب پچاس کروڑ ڈالر کے مساوی سکوک اور پانڈا بانڈز یورپی اور چینی مارکیٹ میں جاری کرے گا۔ پاکستان پہلے یورپی مارکیٹ میں سکوک جاری کرے گا جس کے چند ماہ بعد چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز جاری کرے گا۔ اس سے قبل رواں سال کے آغاز پر پاکستان تین ارب پچاس کروڑ ڈالر کے یورو بانڈز جاری کرچکا ہے۔ یاد رہے کہ واپڈا نے بھی براہ راست عالمی منڈی سے پچاس کروڑ ڈالر کا گرین بانڈ جاری کیا تھا مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی قرض واپس کرنے کی صلاحیت پر عالمی ریٹنگ ایجنسیاں کیا کہتی ہیں۔ پاکستان سرمایہ کاری سے متعلق درجہ بندی میں چھٹے درجے سے بھی نیچے ہے جس کی وجہ سے اس کو عالمی منڈی میں زائد شرح سود پر قرض لینا ہوگا۔ یہ مرحلہ فکر اِس جانب متوجہ کر رہا ہے کہ پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافے کے امکانات اور صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے اور یہ مشکل ہدف اگر موجودہ حکومت کے پہلے تین سال میں حاصل نہیں ہو سکا تو باقی ماندہ آئینی مدت میں بھی ہوتا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔