اکیسویں صدی میں دنیا جیسے جیسے گلوبلائز ہوتی گئی اورمادی ترقی بڑھتی گئی توساتھ ہی انسانی حقوق کے خدشات نے بھی عالمی جگہ لے لی جس میں با لخصوص ناپاک سیاسی عزائم کی تکمیل اور قومی مفاد کی خاطر انسان نسل پرستانہ و شدت پسندانہ نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا اور نسلی بنیادوں پر انسانی استحصال و نسل کشی محض فیشن بن کر رہ گیا۔ عصر حاضرکے نام نہاد داعی امن ممالک اور جمہوریت پسند ریاستیں انسانیت سے ایسا برتاؤ کرتے ہوئے بالکل بھی خِفّت محسوس نہیں کرتیں جن میں جمہوریت کا خود ساختہ علمبردار اور انسانی حقوق پر مصنوعی راگ الاپنے والا بھارت سرِ فہرست ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت انسانی حقوق کی پامالی اور عدمِ تحفظ کے لحاظ سے بھارت صفِ اول میں شمار ہوتا ہے پھر چاہے وہ اقلیتوں کے حقوق ہوں یا دیگرانسان جو بھارت میں بستے ہیں ان کے حقوق ہوں۔ہندو بنیا اپنے نسل پرستانہ اور انتہاء پسندانہ نظریات کی تقلیدمیں انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہاہے۔اسی ضمن میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ بھارت میں بالخصوص مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور ان کی شناخت ختم کرنے کیلئے جو ناپاک اقدامات کئے جارہے ہیں اس سے یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے بھارت ایک اور اُندلس بننے جارہا ہے تاہم دوسری طرف اس وقت بھارت کی عیسائی اقلیت پر بھی زمین تنگ کی جارہی ہے اور اس حوالہ سے نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں تفصیل سے ذکر بھی کیاہے بھارت مذہبی اقلیتوں کیلئے جہنم بنتاجارہاہے بی جے پی کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کی بدولت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتیں بھی عدم تحفظ کاشکارہیں ا نتہاپسندوں کی وجہ سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ کیفیت پورے ملک میں پائی جارہی ہے۔رواں ماہ کے ابتدائی دو ہفتوں میں مدھیہ پردیش، ہریانہ اور کرناٹک سے عیسائیوں پر حملوں کی خبریں موصول ہوئیں۔ منظم تشدد کی ان وارداتوں کے ساتھ جو دوسرا خطرہ مذہبی اقلیتوں کو لاحق ہے وہ اْن قوانین کا وضع کیا جانا ہے جن سے مذہبی آزادی پر حرف آتا ہے اور اس کی تحدید ہوتی ہے۔ اس تحدید کا مظہر وہ قوانین ہیں جو 2018ء کے بعد سے بی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں میں بنائے گئے مثلاً بین مذہبی شادی مخالف قانون۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت ریاست کی عیسائی عبادت گاہوں کا سروے بھی کروانا چاہتی ہے جس کا مقصد سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ عیسائی فرقہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، مذہبی اْمور کی نگرانی ہو اور عبادت گاہوں کو نگاہ میں رکھا جائے۔ ایک مسئلہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ہے کہ نفرت کی بنیاد پر ہونے والے جرائم (ہیٹ کرائمز) کو حکومت علاحدہ زمرہ میں نہیں رکھتی اس لئے اس موضوع پر کوئی سرکاری دستاویز موجود نہیں ہے۔ اس سال کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک تفتیشی (فیکٹ فائنڈنگ) رپورٹ میں نفرت کی بنیاد پر ہونے والے نوے واقعات کی تفصیل اور عیسائیوں کے خلاف حملوں کے اْن تین سو واقعات کا خلاصہ ملتا ہے جو بنیادی طور پر شمالی بھارت سے متعلق ہیں بھارتی ریاست کرناٹک میں جو عیسائی مخالف حملوں کی تفصیل جانے بغیر حملہ آوروں کے عزائم کو سمجھنا مشکل ہے۔ ایک منظم گروہ جو چند سو افراد پر مشتمل ہوتا ہے، اْس وقت چرچ میں داخل ہوتا ہے جب وہاں دعائیہ تقریب چل رہی ہوتی ہے۔ اس گروہ کے لوگ بھجن گانا شروع کردیتے ہیں۔ وقفے وقفے سے نعرے بازی ہوتی ہے۔ پھر یہ بتائے بغیر کہ تبدیلی مذہب سے اْن کی کیا مراد ہے اور تبدیلی مذہب کے کن واقعات سے وہ ناراض ہیں، نعروں میں تبدیلی مذہب سے متعلق الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں۔ اس دوران وہ تقریب میں شامل لوگوں کے خلاف ہنگامہ شروع کردیتے ہیں اور اکثر و بیشتر پْر تشدد ہوجاتے ہیں۔ پولیس کو اس دھینگا مشتی کا علم ہوتا ہے مگر اس کے اہلکار یا افسران جائے واقعہ پر تب پہنچتے ہیں جب بہت کچھ ہوچکا ہوتا ہے۔ پولیس، چرچ کی حدود میں شرپسندوں کے زبردستی داخل ہونے کو جرم قرار نہیں دیتی پادری اور دیگر مذہبی شخصیات اور معتقدین، جن پر زیادتی ہوئی، کے خلاف پولیس میں شکایات درج کرائی جاتی ہیں جبکہ مذہبی اْمور کی ادائیگی کے اْن کے بنیادی حق پر ضرب لگائی گئی ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر پولیس کا رویہ تشدد اور ڈرانے دھمکانے کے واقعات کو روکنا نہیں، مصالحت کروانا ہوتا ہے تاکہ لاء اینڈ آرڈر کے نقطہ نظر سے جب ”لاء“ کا نفاذ ممکن نہ ہو تو ”آرڈر“ یقینی ہوجائے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ تشدد اور ہراساں کرنے پر، جو فساد کی جڑ ہے، توجہ نہ دی جائے یاد رہنا چاہئے کہ تشدد بنیادی طور پر ذات پر مبنی ہوتا ہے اور دوران تشدد ذات ہی کو بنیاد بناکر بْرا بھلا کہا جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تشدد کے بعد بھی عیسائیوں کو بخشا نہیں جاتا بلکہ انہیں دیگر مصائب بھی جھیلنے پڑتے ہیں جیسے کچھ لوگو ں کے روزگار کا چھن جانا، سماجی بائیکاٹ، مکانات کا نقصان اور ایسے ہی دیگر مسائل جن کا تصور مشکل نہیں کہ ان کے ساتھ اور کیا کچھ ہوتا ہوگا۔ پی یو سی ایل کی رپورٹ کہتی ہے کہ ایسے واقعات کی سرپرستی بڑے ہندوتوا گروپس کی جانب سے ہوتی ہے جبکہ بی جے پی کے قانون ساز بھی بعض اوقات ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مظلوموں کے ساتھ صرف تشدد نہیں ہوتا، اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوتا ہے جو جاری رہتا ہے اگر اقلیتوں کی بات کی جائے تو اس وقت بھارت میں مسلمان، عیسائی، سکھ اور بدھ مت جیسی مذہبی اقلیتیں بستی ہیں جو اپنے جان و مال کے تحفظ اور مذہبی آزادی کیلئے ہندو انتہاپسند وں کے رحم و کرم پرہیں بھارت کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مسلم اقلیتوں کی تعداد (14.2 فیصد)، (عیسائی 2.3 فیصد)، (سکھ 1.7 فیصد) اور بدھ مت (0.7فیصد) ہے“تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو تقسیم ہند کے بعد بھارتی قیادت نے اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کیلئے وقتی طورنعرہ بلند کیا کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہو گی جس میں ہندو، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے-لیکن ایسا عملی طور پر بھارت کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور اقلیتوں کو ہمیشہ انتہاء پسند ہندوؤں کی طرف سے ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ہندو بالادستی قبول کرلیں -ایسے ہی جیسے تاریخ میں اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ تین میں سے ایک آپشن قبول کر لیں عیسائیت قبول کر لیں،ہجرت کر جائیں یا پھر قتلِ عام کیلئے تیار ہو جائیں۔موجودہ ہندوستان میں بھی اقلیتیں کچھ اسی طرح کی صورتحال سے دو چار اپنے حقوق سے محروم بے دست و پا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بھارت میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی کا نہ ملنا، حقِ رائے دہی کا نہ ملنا،انصاف کا نہ ملنا، بنیادی حقوق (صحت،تعلیم، رہن سہن) سے محرومی،غربت،بے روزگاری‘ تشدد‘دہشت گردی و انتہاء پسندی جیسے مسائل کا سامنا ہے جہاں تک اقلیتوں کا تعلق ہے اس کے لئے یہ قابلِ غور بات ہے کہ RSS (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) جس کا مقصد ہی بھارت سے اقلیتوں کا خاتمہ اور ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے اس وقت مودی سرکا ر کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے نریندر مودی کے قریبی ساتھی راجیشور سنگھ نے ایک عوامی پرو گرام میں ہندو بالادستی کی بات کرتے ہوئے نسلی تعصب کی شر مناک مثال قائم کی تھی اس کاکہناتھاکہ ”ہمارا ہدف 2021ء تک بھارت کو ہندو راشٹرا (ہندو ملک) بنانا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں اس لئے یا تو وہ ہند ازم میں تبدیل ہوجائیں یا پھر انہیں یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا جائے گا۔مزید کہا کہ؛میں یقینی بناؤں گا کہ 31 دسمبر 2021ء تک بھارت مسلمانوں اور عیسائیوں سے آزاد ہو جائے گا“مذکورہ بیان اُندلس کے اس واقعہ کی یاد تازہ کرتا ہے جب وہاں سے لاکھوں مسلمان شہید کئے گئے، تقریباً 30 لاکھ مسلمان جلا وطن کردیے گئے اور جو باقی بچے تھے انہیں زبردستی عیسائی بنایا گیا ہندو انتہا پسندوں نے اپنے متعصبانہ نظریات کی آڑ میں انسانیت سے جو سلوک روا رکھا ہوا ہے اس سے خود بھارت کی سالمیت کو خطرہ ہے جس کی پیش گوئی خشونت سنگھ نے اپنی معروف تصنیف ”دی اینڈ آف انڈیا“میں یوں کی ہے کہ:”بھارت کے ٹکڑے ٹکرے ہوجائیں گے دنیا کا کوئی بھی ملک بھارت کو تباہ نہیں کرے گابلکہ یہ اپنے آپ ہی تعصبانہ رویوں کی بدولت خود کشی کا ارتکاب کرے گا“۔