بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ

بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ عوام حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس کے مطابق ہی فیصلے کرتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان سمیت پارٹی کے اعلیٰ حکام‘ مختلف تحصیلوں اور سٹی کونسل کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے طریقہ کار سے بھی ناخوش ہیں جگہ جگہ پارٹی کے دیرینہ کارکنوں نے  امیدواروں کے خلاف احتجاج کئے اور غصے میں آزاد امیدوار کھڑا کرکے انکی کھل کر انتخابی مہم چلائی ظاہر ہے فائدہ حزب اختلاف کی جماعتوں خاص کر جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی کو ہوا۔ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی اور دن بدن اشیاء ضروریہ بجلی گیس ادویات آٹے  دالوں گھی کی قیمتوں میں اضافہ بھی عوامی رائے پر اثر انداز ہونے والے عناصر میں سے ہیں۔ جس کے باعث لوگوں نے  حزب اختلاف کی جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کا انتخاب کیا حالانکہ عام حالات میں بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخابات میں اکثر  وہی جماعتیں کامیاب ہوتی ہیں جو برسراقتدار ہوتی ہیں جمعیت علماء اسلام نے نہ صرف پشاور کے میئر کی نشست پر کامیابی حاصل کی ہے بلکہ ایک ایسے شہر میں 7میں سے ایک سٹی کونسل اور4تحصیل کونسلوں کی چیئرمین کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جہاں پانچ کے پانچ ایم این ایز اور 14میں سے11 ایم پی ایز کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے پشاور میں تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی مجموعی طور پر17اضلاع میں جے یو آئی سب سے آگے ہے جبکہ تحریک انصاف دوسرے اور اے این پی تیسرے نمبرپ ر رہی ہے ایک بڑی تعداد میں آزاد امیدوار ہی مختلف تحصیلوں میں کامیاب ہوئے ہیں انتخابات کے پہلے مرحلے میں 17اضلاع میں 66 تحصیلوں اور2362 ویلج اور نیبرہڈ کونسلز پر 37 ہزار سے زائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا ڈیرہ اسماعیل خان کی سٹی کونسل بنوں کی بکاخیل اور پشاور کی6پولنگ سٹیشنز پر امن وامان کی وجہ سے پولنگ ملتوی کردی گئی نتائج کے بعد عمران خان نے بذات خود خراب کارکردگی کا نوٹس لیا ہے اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے معاملات کی وہ خود نگرانی کرینگے پلان کے مطابق دوسرے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے باقی اضلاع میں انتخابات اگلے مہینے منعقد ہونے ہیں تاحال انتخابی شیڈول کا اعلان نہیں کیا گیا پہلے مرحلے کے انتخابات اور نتائج نے تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو ایک اہم سبق دیا ہے کہ نہ صرف بلدیاتی انتخابات بلکہ جنرل الیکشنز میں بھی فتح اور شکست کا زیادہ دارومدار بہترین امیدوار کے انتخاب پر منحصر ہے اب سیاسی کارکنوں میں بھی شعور آرہا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ عوامی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں امیدوار کے انتخاب میں یہ بات سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اسکی پارٹی کی ساتھ وابستگی صرف ٹکٹ کے حصول یا ذاتی مفاد کیلئے نہ ہو کم از کم وہ پارٹی کا دیرینہ کارکن ہو جس کی پارٹی اور عوام کیلئے خدمات ہوں ورنہ عوام سبق سکھانے کیلئے ووٹ کسی اور کے حق میں استعمال کرتے رہیں گے۔