طب کی تعلیم: عصری تقاضے

پاکستان میں طب (ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس) کا تعلیمی نصاب اور تدریسی بندوبست ”نظرثانی“ چاہتا ہے تاکہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تدریسی تصورات بالخصوص اِنٹرنیٹ پر منحصر ’آن لائن تعلیم‘ کے اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسا نصاب مرتب ہو سکے‘ جس کا انحصار اچھی یاداشت پر نہیں بلکہ تصورات کو سمجھنے اور اِس بابت تحقیق کی جستجو پیدا کرے۔ علاؤہ ازیں طب کے نصاب ِتعلیم اور طریقہئ امتحانات میں پائے جانے والے فرق کو بھی ختم ہونا چاہئے۔ اگرچہ طلاب کی رجسٹریشن سے لیکر پیشہ ورانہ انتظامات اور اِن پر عمل درآمد ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کی ذمہ داری ہے لیکن اِس سلسلے میں نجی تعلیمی اِداروں کی نمائندہ تنظیم ”پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشنز (PAMI)“ کے فیصلہ سازوں کو ”نیشنل کانفرنس آن میڈیکل ایجوکیشن“ طلب کرنی چاہئے تاکہ اِس ’قومی مشاورتی اجلاس‘ میں طب کے نصاب ِتعلیم بارے غوروخوض ہو سکے‘ جس کے کئی پہلو نظروں سے اُوجھل ہیں جیسا کہ پاکستان میں طب کی تعلیم کے لئے اہلیت کا معیار جن بنیادوں پر کھڑا ہے وہ میٹرک (SSC)‘ ایف ایس سی (FSc) اور ایم ڈی کیٹ (MDCAT) نامی امتحانات ہیں اور اِن امتحانات میں ایک خاص تناسب سے نمبر حاصل کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے جبکہ ’ایف ایس سی‘ تک کئی ایسے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں جن کا طب کی تعلیم سے بہت کم تعلق ہوتا ہے۔ اگر قومی مشاورت میں اِس بات پر بھی غور ہو کہ طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا و طالبات کے لئے 12ویں کلاس (ایف ایس سی) کی تکمیل کی بجائے 8ویں کلاس (مڈل) کے آغاز سے مضامین کا انتخاب الگ کر دیا جائے تو اِس سے طب کی تعلیم کا آغاز اوّلین درجوں سے ہو جائے گا اور ضروری نہیں کہ ہر طالب علم آٹھویں سے بارہویں درجے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ’ایم بی بی ایس‘ یا ’بی ڈی ایس‘ ہی کی تعلیم حاصل کرے بلکہ ایسے طلاب کی ذہانت و اہلیت ’ایف ایس سی‘ کی تکمیل تک واضح ہو جائیگی‘ تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں کو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے بدلتے ہوئے اسلوب اور چند تکنیکی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا جیسا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اپنی ذات اور ساخت میں ’ڈیٹا سائنس‘ کے درجے تک جا پہنچی ہے جبکہ ہمارے ہاں درس و تدریس میں اِس کا استعمال انتہائی بنیادی ہے۔ امتحانی نظم و نسق‘ تدریسی مراحل اور علاج معالجے میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا عمل دخل بڑھ رہا ہے بلکہ مصنوعی ذہانت کا استعمال علاج معالجے (ہیلتھ کیئر انڈسٹری) میں بھی ہونے لگا ہے جبکہ طالب علموں کو اِس بارے میں خصوصی طور پر آگاہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی تعلیمی اداروں کو طب کے شعبے میں جاری تحقیق (پیشرفت) سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں طب کی تعلیم کس طرح مربوط ہوگی اِس بارے میں بھی قومی سطح پر غوروخوض کرتے ہوئے حکومتی و غیرحکومتی وسائل کو کسی ایک چھتری تلے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ٹیکنالوجی جان لیوا نہیں بلکہ حیات آفریں ہے۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف امراض کی تشخیص میں بہتری آ رہی ہے بلکہ پیچیدہ امراض کے علاج معالجہ جس کے تحت مریضوں کی جان بچانے جیسی صورتحال درپیش ہوتی ہے‘ اِس پورے عمل کو پیچیدہ سے آسان بنانے میں ٹیکنالوجی ہی معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اِس سلسلے میں رواں ہفتے یونیورسٹی آف کراچی کے ”سنٹر فار مولیکیولر میڈیسن اِینڈ ڈرگ ریسرچ“ کے زیراِہتمام ’ہیلتھ سائنسز‘ میں مصنوعی ذہانت کے عمل دخل سے متعلق خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا لیکن اِس پیشرفت سے سرکاری یا میڈیکل کالجز بے خبر ہیں‘ جو منطق سے بالاتر ہے۔