پہلا اقدام: لوکل کونسل بورڈ کی جانب سے تجدید (اور سفارش) کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے مالی بحران کا شکار 63 ٹاؤن میونسپل اتھارٹی (ٹی ایم ایز) کو 54 کروڑ روپے جاری کئے ہیں۔ اِن میں ہری پور (دس کروڑ)‘ بنوں (دس کروڑ)‘ صوابی (پانچ کروڑ)‘ چارسدہ (پانچ کروڑ)‘ ٹانک (دو کروڑ نوے لاکھ)‘ ٹل (ایک کروڑ ساٹھ لاکھ)‘ نوشہرہ (ایک کروڑ چالیس لاکھ)‘ کوہاٹ (ایک کروڑ تیس لاکھ)‘ پہاڑ پور (ایک کروڑ)‘ غازی (ایک کروڑ) جبکہ تریسٹھ مالی بحران کا شکار دیگر ’ٹی ایم ایز‘ کی مالی امداد ایک کروڑ سے کم اُور دس لاکھ یا اِس سے زیادہ ہے۔دوسرا اقدام: محکمہئ بلدیات خیبرپختونخوا نے تین اضلاع میں تین نئی ’ٹی ایم ایز‘ قائم کرنے کے تین الگ الگ اعلامیہ جاری کئے۔ خاص بات یہ ہے کہ ضلع لوئر کوہستان کی مذکورہ تینوں ٹی ایم ایز (دورہ میرہ‘ گڑھی کپورہ اور پربند بھاشا) جنہیں درجہئ چہارم (کٹیگری ڈی) میں رکھا گیا ہے‘ مالی اعتبار سے اِس حد تک کمزور ہیں کہ اِن کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوں گے اور اِن میں ٹی ایم ایز بننے کے بعد جو عملہ بھرتی کیا جائے گا اُس کا بوجھ صوبائی خزانے پر ہی پڑے گا جبکہ صرف ترقیاتی کاموں کے لئے ہی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کو غیرترقیاتی کاموں جن میں تنخواہیں اور ایک مرحلے پر ملازمین کی پینشن بھی شامل ہو گی ادا کرنا پڑے گی۔ لائق توجہ (خاص) نکتہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں پہلے ہی 72 ’ٹی ایم ایز‘ کسی نہ کسی صورت مالی بحران کا شکار ہیں اور ایسی صورت میں مزید ایسی ٹی ایم ایز کا اضافہ کرنا کہ جن کے اپنے مالی وسائل نہ ہوں اور مالی بحران سے دوچار ’ٹی ایم ایز‘ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے منصوبہ بندی اور خودکفالت یا آمدنی کے منصوبہ جات (ترقیاتی کاموں) کی بجائے مزید 3 ’ٹی ایم ایز‘ کا اضافہ کر دیا جائے تو کیا اِسے منطقی (دانشمندانہ) اقدام قرار دیا جائے گا۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ اگر بلدیاتی ادارے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے اُور اِن کی آمدنی کے وسائل بھی فراہم کر کے اِنہیں مالی طور پر خودکفیل بنا دیا گیا تو بات رکے گی نہیں بلکہ بڑھتی چلی جائے گی اور ایک عام آدمی کی نظروں میں بلدیاتی اِداروں کی اہمیت بڑھ جائے گی۔پاکستان میں بلدیاتی نظام کو اگر کسی دور حکومت میں مضبوط اور کامیاب کی کوشش ہوئی ہے تو وہ عوام کے منتخب سیاسی ادوار نہیں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے بلدیاتی انتخابات 1958ء کے مارشل لاء کے دوران ہوئے۔ جنرل ایوب خان کے دوران میں متعارف کروایا گیا بلدیاتی نظام افسرشاہی کے تابع فرمان رکھا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلدیاتی نظام (1977ء سے 1988ء) جس میں ایوب خان کی طرح سیاسی عمل دخل نہیں رکھا گیا لیکن بلدیاتی نمائندوں کو مثالی اختیارات دیئے گئے۔ 1988ء سے 1999ء کے دوران سیاسی حکومتیں رہیں جنہوں نے بلدیاتی اداروں کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم نہیں کیا۔ صدر پرویز مشرف کا دور آیا تو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا اعلان ہوا لیکن فیصلہ سازی اور مالی خودمختاری جیسا اختیار نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوا۔ اِس کے بعد 18ویں آئینی ترمیم ہوئی جس نے وفاق‘ کے مقابلے صوبوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ یہاں آئین پاکستان کی 140ویں شق کے جز اے (A) کا حوالہ موزوں رہے گا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ”ہر صوبہ پابند ہے کہ وہ اپنے ہاں مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لائے اور سیاسی‘ انتظامی اور مالی ذمہ داریاں و اختیارات عوام کے منتخب کردہ بلدیاتی نمائندوں کو دیئے جائیں۔“ کیا آئین کی شق 140(A) کے بعد بھی مزید ایسے کسی حوالے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے جو مقامی حکومتوں کے انتخابات سے متعلق ہو اور اگر بلدیاتی انتخابات آئینی ذمہ داری (فرض) سمجھتے ہوئے بروقت نہیں کروائے گئے تو اِس کے لئے قصوروار کون ہے؟ علاؤہ ازیں ایک مسئلہ ترقیاتی فنڈز کا بھی ہے جس کی صورتحال کو صرف ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مالی سال 2019-20ء کے لئے صوبائی فنانس کمیشن نے بلدیاتی اداروں کے لئے 46 ارب روپے مختص کئے تھے لیکن صوبائی حکومت نے صرف 3 ارب روپے جاری کئے جس کی وجہ سے اُس وقت کا تین سطحی بلدیاتی نظام جو کہ ضلع‘ تحصیل اور ویلیج و نیبرہڈ کونسلوں پر مشتمل تھا نئے ترقیاتی منصوبے سامنے نہیں لا سکے۔ آسان حساب تھا کہ حسب آئین (خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ) صوبے کے کل ترقیاتی بجٹ کا کم سے کم تیس فیصد بلدیاتی اداروں کو ملنا چاہئے تھا لیکن ایسا کسی ایک مالی سال نہیں بلکہ ہر مالی سال میں نہیں کیا گیا۔ ذہن نشین رہے کہ صوبے کے جاری ترقیاتی اخراجات کے لئے اُس وقت 153 ارب روپے مختص کئے گئے تھے اُور اِس لحاظ سے بلدیاتی اداروں کا حصہ چھیالیس ارب روپے بنتا تھا لیکن جو تین ارب روپے دیئے گئے اُن سے صرف جاری ترقیاتی منصوبوں ہی کی تکمیل بمشکل ہوئی یا بہت سے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہونے کے باوجود بھی مکمل نہ ہو سکے۔ اب جبکہ دسمبر دوہزاراکیس تا مارچ اپریل دوہزار بائیس تک بلدیاتی اداروں کے انتخابات مکمل ہوں گے تو دکھائی یہی دے رہا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو حکومت کی جانب سے حسب ِآئین فنڈز آئندہ مالی سال 2022-23ء کے آغاز پر ملیں گے۔ مالی وسائل ملنے کی راہ میں ایک اور تکنیکی رکاوٹ بھی درپیش ہے کہ جن تحصیلوں یا کونسلوں میں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے اکثریت میں کامیاب نہیں ہوئے یا اُنہیں کلیدی عہدے جیسا کہ تحصیل یا میٹروپولیٹن تحصیل میئر کی نشست نہیں ملی وہاں کے لئے ترقیاتی فنڈز کیا کسی دوسری سیاسی جماعت کو جاری کئے جائیں گے جبکہ عام انتخابات (دوہزارتیئس) کی تیاریاں بھی آئندہ مالی سال کے اختتام سے پہلے ہی شروع ہو چکی ہوں گی اور انتخابی سیاست کا دائرہ ہمیشہ ”ترقیاتی فنڈز“ کے اردگرد رہتا ہے۔ جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ اِس نظام کی روح (یعنی معنویت) کو مدنظر رکھتے ہوئے بلدیاتی اداروں کی کماحقہ فعالیت اور استحکام کے لئے بے لوث جدوجہد کی جائے‘ بلدیاتی نظام کی کامیابی میں کسی جماعت کی نہیں بلکہ جمہوریت اور پاکستان کی کامیابی مضمر ہے اور اِسے بہرصورت خودکفیل بنانے کے لئے زیادہ محنت و جذبے کے ساتھ سیاسی و جماعتی وابستگیوں اور نظریات سے بالاتر ہو کر کوشش وقت کی ضرورت (تقاضا) ہے۔