پاکستان (جنوب ایشیاء) سے براستہ جمہوری اسلامی ایران سے ہوتی ہوئی ترکی (وسط ایشیائی ممالک) کے لئے مال بردار ریل گاڑی کا آغاز دس سالہ وقفے کے بعد ہونا ہر لحاظ سے خوش آئند ہے کیونکہ اِس سے مذکورہ تینوں ممالک کے درمیان نہ صرف معطل تجارتی رابطے پھر سے بحال و فعال ہونے کی اُمید پیدا ہوئی گئی ہے بلکہ اِس سے خطے کے دیگر ممالک بالخصوص افغانستان کو بھی تجارتی و کاروباری فائدہ ممکن ہے۔ اگر صرف پاکستان کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان سے ترکی کے لئے ”مال بردار ریل گاڑی‘‘صرف سفری سہولت نہیں اور نہ ہی صرف یا محض تجارت ہے بلکہ مسلمان ممالک کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد اور ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ایک ایسی ”اقتصادی کفالت مہم“ ہے جس کا ایک ہی پہلو یعنی نفع نقصان سے جائزہ نہیں لینا چاہئے۔ چین پاکستان اقتصادی راہدای (سی پیک) کے بعد ترکی اور ایران کے ساتھ تجارتی قربت سے امکانات کے نئے جہاں ہویدا ہو رہے ہیں اور مستقبل ِقریب کا وہ منظرنامہ بھی تصوراتی (ناممکن) نہیں رہا‘ جس میں جنوب مشرق ایشیائی اور مشرق وسطیٰ و یورپی خطے کے درمیان پاکستانی تجارتی رابطہ اور پُل کا کردار ادا کرے گا۔ ”مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!“اِستنبول تہران اسلام آباد کہلانے والی ’مال بردار ریل گاڑی (کارگو ٹرین)‘ کا آغاز پہلی مرتبہ سال 2009ء میں ہوا‘ جو چند برس بعد یعنی سال 2011ء میں معطل کر دی گئی۔ بنیادی بات یہ ہے کوئی ایک طاقت ایسی ضرور ہے جو پاکستان سے تجارت اور بالخصوص اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے روکتی ہے۔ یہی طاقت چین کے ”بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو (BRI)“ نامی حکمت عملی کو بھی کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی جبکہ پاکستان کا مفاد اِسی میں ہے کہ برآمدات کے علاوہ راہداری کے ذریعے تجارت جاری رہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان سے براستہ ایران تا ترکی (تین ممالک) سے مال بردار گاڑی کا سفر چودہ دن میں مکمل ہوتا ہے جبکہ بحری راستوں سے اشیا ء و اجناس کی نقل و حمل پر اِس سے زیادہ وقت اور اخراجات آتے ہیں۔ ریل گاڑی کا یہ سفر چھ ہزار پانچ سو ترتالیس کلومیٹر طویل ہے اور اگر مذکورہ تینوں ممالک اِس ریل گاڑی راہداری کو بہتر بنائیں تو 14 دن کا یہ سفر 10 دن میں طے ہو سکتا ہے‘ جس سے وقت اور لاگت دونوں کی بچت ہوگی جبکہ مال بردار ریل گاڑی کی کامیابی ہی سے مذکورہ تینوں ممالک (پاکستان‘ ایران اور ترکی) کے درمیان مسافروں کو لانے لے جانے کے لئے بھی ریل گاڑی کا استعمال ہونے لگے گا جو ایک مشروط لیکن لامحدود امکانات رکھنے والی پیش رفت ہے۔ اِس حکمت عملی کی کامیابی کا ”دوسرا اہم اور یقینی پہلو‘‘پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے کہ ایک طرف پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں اور روس تک زمینی راستوں تک موجود راہداری پر نظریں جمائے ہوئے ہے تو دوسری طرف ایران کے راستے یورپ کے سب سے بڑے شہر تک پہنچ کر بھی پاکستان کا سفر ختم نہیں ہوتا‘ اُور یہ قطعی طور پر معمولی پیشرفت نہیں لیکن اگر فیصلہ ساز اِس جغرافیائی محل و وقوع سے کماحقہ فائدہ اُٹھائیں۔ قابل ذکرہے کہ ”ترکی‘‘کی پاکستان سے درآمدات کم ہو رہی ہیں اور ستمبر دوہزاراکیس میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ترکی پاکستان کے مقابلے برازیل‘ اسرائیل‘ مصر‘ یونان‘ ازبکستان‘ انڈونیشیا‘ ویت نام‘ متحدہ عرب امارات‘ سویڈن‘ تھائی لینڈ‘ ناروے‘ ڈنمارک‘ سلوواکیا‘ لیبیا‘ مراکش‘ پرتگال‘ قازقستان‘ ائرلینڈ اُور میکسیکو سے بالترتیب پاکستان کے مقابلے زیادہ درآمد کرتا ہے۔پاکستان سے 1990 کلومیٹر‘ ایران سے 2603 کلومیٹر اُور ترکی سے 1950 کلومیٹر گزرنے والی مال بردار گاڑی مجموعی طور پر 6543 کلومیٹر فاصلہ طے کرے گی اور ایک اندازے کے مطابق بحری راستے کے مقابلے اِس بذریعہ ریل گاڑی مال برداری پر لاگت 50فیصد جبکہ ہوائی جہاز کے ذریعے مال برداری کی صورت 100 فیصد سے زائد کم ہے اُور جب ہم مال برداری (تجارت) میں اِس قدر بڑی بچت کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو یہ قطعی طور پر معمولی نہیں ہوتی اُور اِس کم لاگت کی وجہ سے برآمدات و درآمدات کرنے والے فریقین کو یکساں فائدہ ہوتا ہے۔ پاکستان سے چلنے والی مال بردار گاڑی ترکی کے درالحکومت انقرہ سے ہوتی ہوئی استنبول پہنچے گی اور خاص بات یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی 10 رکنی تنظیم ’اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے پلیٹ فارم سے علاقائی سطح پر تعاون و تجارت کے فروغ کی ایک حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ مذکورہ تنظیمکا قیام 1964ء میں ہوا تھا اور تب اِس کا نام ”ریجنل کوآپریشن فار ڈویلپمنٹ“ رکھا گیا تھا تاہم 1985ء میں اِس کا نام تبدیل کر کے ’اِی سی او‘ رکھ دیا گیا اور سال 2020ء میں ’اِی سی اُو‘ کے رکن ممالک کے وزراء کی سطح پر ہوئی ملاقات (اجلاس) میں پاکستان سے براستہ ایران و ترکی کے درمیان معطل مال بردار ریل گاڑی کے آغاز سے متعلق تجویز سامنے آئی جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا اور پاکستان کی جانب سے اِس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے سنجیدہ فعال کوششیں کی گئیں‘ جو اپنی جگہ اہم ہیں۔ مستقبل قریب و بعید میں جنوب ایشیائی ممالک کے درمیان تعاون کی صورتحال کیا ہوگی۔ اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کیونکہ جب ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات فروغ پاتے ہیں تو اُن کے درمیان سیاسی و سفارتی اور ثقافتی روابط بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو اِس نادر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نہ صرف ترک زبان و ادب اور ترک جغرافیئے و سیاست کو متعارف کرانا چاہئے بلکہ ’ترک شناسی‘ عام کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا) کے وسائل سے بھی بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے زمانے میں یہ کام پہلے سے زیادہ آسان‘ کم خرچ اور مؤثر و پائیدار انداز میں سرانجام دیا جا سکتا ہے لیکن اِس کے لئے جذبے اور محنت سے کام کرتے ہوئے اُن سازشوں کو بھی ناکام کرنا ہوگا جو ’سی پیک‘ کے بعد اب ’اِی سی اُو‘ ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کا فروغ ہوتا نہیں دیکھ پائیں گی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستان میں ترکی کے سفیر مصطفی یورداکل (Mustafa Yurdakul) مبارکباد کے مستحق ہیں‘ جنہوں نے طویل عرصے قبل وضع کئے گئے ترقیاتی حکمت ِعملی کو عملی جامہ پہنچایا اور یقینا مال بردار ریل گاڑی کا سفر پاکستان سے شروع ہو کر ’ترکی‘ پر ختم نہیں ہوگا بلکہ یہ ترکی سے آگے یورپی ممالک تک بھی پھیلتا چلا جائے گا لیکن اگر حکمت عملی میں تسلسل رہے اُور اِسے دشمنوں کی سازشوں اُور نظربد سے محفوظ رکھنے کو شروع دن سے حکمت عملی کا جز رکھا جائے۔