شاعر یعقوب عامر نے یہ کہتے ہوئے شاید پشاور ہی کی ’منظرکشی‘ کی ہو کہ ”چند گھنٹے شوروغل کی زندگی چاروں طرف …… اور پھر تنہائی کی ہمسائیگی چاروں طرف۔“ ایسے ہی شوروغل سے چند گھنٹے واسطہ رکھنے پر جو مشاہدات سامنے آئے اُن میں منشیات فروشی اور منشیات کے عادی افراد ایسا بدنما دھبہ ہیں‘ جن سے پشاور کو صاف کرنا صرف ضروری نہیں بلکہ انتہائی ضروری (ناگزیر) ہو چکا ہے۔ کیا ہمارے فیصلہ سازوں نے کبھی اِس بارے سوچا ہوگا کہ جب ہر دن کے آغاز اور تدریسی دورانئے کے اختتام پر طالب علم شہر کی انتہائی مصروف شاہراؤں اور چوراہوں پر منشیات استعمال کرنے والوں کو دیکھتے ہوں گے تو اُن کے ذہنوں میں کتنے ہی سوالات اُٹھتے ہوں گے کہ آخر یہ کون ہیں‘ کیا کر رہے ہیں اُور سب سے اہم و بنیادی بات یہ ہے کہ اِن نظاروں سے اُن طالب علموں کے اعصاب پر کیا گزرتی ہوگی؟ پشاور اہل پشاور سے ہے اور تعلق یک طرفہ نہیں ہونا چاہئے کہ احساس کی موت معلوم ہو۔ فیصلہ ساز توجہ فرمائیں کہ ایک طرف پشاور کو خوبصورت بنانے کی مہمات ہیں جن میں سبزہ زاروں کو بحال کیا جا رہا ہے (بہت ہی اچھی بات ہے)۔ جا بجا خوبصورتی کیلئے محراب بنائے جا رہے ہیں (یہ بھی بہت ہی اچھی بات ہے)۔ فٹ پاتھوں پر بیش قیمت ٹائلز اور صفائی کا غیرمعمولی اہتمام دیکھنے کو ملتا ہے (یہ بھی اچھی بات ہے)۔ ”بی آر ٹی (میٹرو بس) راہداری“ پشاور کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہے (یہ بھی باسہولت پشاور کے خواب کی عمدہ تعبیر ہے) لیکن کیا پشاور کی مثالی ظاہری خوبصورتی کے ساتھ اِس کی معنوی (جزئیاتی) خوبصورتی کی جانب بھی توجہ مبذول نہیں ہونی چاہئے جو اہل پشاور (انسانوں) سے متعلق ہو اور اِس تاثر کو زائل کیا جائے ”پھولوں کے شہر“ کی ساکھ ’منشیات فروشی‘ اور ’منشیات استعمال کرنے والے کے جُھنڈ‘ بن چکے ہیں! پشاور کی ضلعی حکومت جہاں پیشہ ور بھکاریوں کا سدباب کر رہی ہے‘ وہیں کمشنر و ڈپٹی کمشنر پشاور منشیات کے جاری دھندے کا بھی نوٹس لیں جس کی وجہ سے پشاور کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔لمحہئ فکریہ ہے کہ پشاور میں منشیات فروشوں کے ڈیرے (مراکز) صرف سڑک کنارے ہی بدنامی کا باعث نہیں بلکہ تعلیمی اِداروں بالخصوص جامعات کی قیام گاہوں (ہاسٹلز) بھی محفوظ نہیں جہاں اطلاعات کے مطابق نشہ آور اشیا کی ترسیل باسہولت بھی ہے اور وافر بھی‘ جس کی وجہ سے طلبہ کی ایک تعداد تعلیمی عرصے کے دوران ایسی لت میں پڑ جاتی ہے جس سے باقی ماندہ زندگی جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا اور یہ ایک انتہائی سنجیدہ موضوع ہے‘ جسے مزید نظراِنداز نہیں کرنا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو اگر اِس بات پر یقین نہ آئے تو وہ نشے کے عادی افراد کے علاج و بحالی کے لئے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم (این جی او) ”دوست فاؤنڈیشن (قائم اُنیس سو بانوے)“ سے رجوع کر سکتے ہیں‘ جہاں صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے بارے منشیات کے استعمال کی بابت حقائق معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ دوست فاؤنڈیشن کے ایک ذمہ دار سے معلوم ہوا کہ منشیات اِس قدر آسانی سے دستیاب ہیں کہ فاؤنڈیشن میں علاج اور بحالی کے بعد کسی درجہ تندرست ہونے والوں میں سے پچاس فیصد نشے کے عادی افراد دوبارہ منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں اور جب تک منشیات کے خلاف حکومتی اور سماجی روئیوں میں تبدیلی نہیں آئے گی اُس وقت تک منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ ذہن نشین رہے کہ دوست فاؤنڈیشن اپنے محدود وسائل میں ہر سال اوسطاً 400 نشے کے عادی افراد کو بحال کر رہی ہے جبکہ ضرورت اِس سے ہزاروں گنا زیادہ کی ہے! صوبائی اور پشاور سے متعلق فیصلہ ساز اِس سلسلے میں اپنی تحقیق بھی کر سکتے ہیں لیکن ”دوست فاؤنڈیشن“ کے اعدادوشمار بھی یکساں قابل اعتبار ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے انتہائی بھیانک منظرنامہ اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ کیا اِس بات پر غور ہونا چاہئے کہ پشاور میں کئی قسم کے نشے ملتے ہیں جن میں مقامی طور پر تیار کردہ ’آئس (ice)‘ بھی شامل ہے جو 100 روپے فی خوراک کے طور پر ملتی ہے۔ پہلے تاثر یہ تھا کہ ’آئس‘ کہلانے والا انتہائی تیز کیمیائی نشہ بہت مہنگا ہوتا ہے لیکن دوست فاؤنڈیشن میں نشے کے ایک عادی فرق کے بقول یہ آئس کی ایک خوراک کم سے کم سو روپے میں بھی باآسانی مل جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات بارے ذیلی ادارے (UNODC) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”پشاور میں پندرہ سے چونسٹھ سال عمر کے نشہ عادی افراد کی تعداد 8 لاکھ ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ یہ آٹھ لاکھ وہ ہیں جنہیں ہر روز باقاعدگی سے ہیروئن نامی نشہ ملتا ہے جبکہ دیگر منشیات کے عادی افراد کی تعداد آٹھ لاکھ کے مساوی ہے۔اگرچہ منشیات کی روک تھام کے لئے کوششیں بھی جاری ہیں تاہم اس کے باوجود یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ کون سمجھے گا کہ منشیات کا دیمک پشاور کو چاٹ (کھائے جا) رہا ہے اگرچہ ’دوست فاؤنڈیشن‘ کے ذمہ دار احتیاط (ڈپلومیسی) سے کام لیتے ہوئے منشیات کے بڑھتے ہوئے اِستعمال کی وجہ ’حکومتی اِداروں‘ بالخصوص قانون نافذ کرنے والوں کو قرار نہیں دیتے لیکن حقیقت یہی ہے کہ نشہ آور اشیا کی باآسانی دستیابی کے باعث اِس کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔