تیل کی قیمتوں میں پھراضافہ

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چارروپے فی لیٹر اضافہ کردیا ہے۔وزارت خزانہ کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 4 روپے اضافے کے بعد نئی قیمت 144.82 روپے فی لیٹر ہوگئی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت میں تین روپے 95پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں چار روپے پندرہ پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا۔ اپوزیشن کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو حکومت کی طرف سے عوام پر پٹرول بم گرانے کے مترادف قرار دیاگیا ہے۔دوسری جانب حکومت نے ایل پی جی کی قیمت میں 6روپے فی کلوکمی کرکے اسے عوام کیلئے نئے سال کا تحفہ قرار دیا ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کا ملک کی 72 فیصدآبادی کو براہ راست فائدہ ہو گا۔ اس سے قبل حکومت نے بھی موٹر سائیکل سواروں کو پٹرول پر سبسڈی دینے کا اعلان کیاتھا۔مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم اور وفاقی وزراء کی طرف سے چند ہفتوں سے عوام کو یہ خوشخبری سنائی جارہی تھی کہ آئندہ چند مہینوں کے اندر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بتدریج کمی ہوگی۔لیکن پٹرول کی نئی قیمتوں نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے۔حالانکہ پاکستان کو موخر ادائیگی پر سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کا تیل بھی مل چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت تیل کی قیمت پندرہ بیس روپے فی لیٹر کم کرتی۔تاکہ مہنگائی کے مارے عوام کو سال نو پر کچھ ریلیف مل جاتا۔ تیل مہنگا ہونے سے کرائے خود بخود بڑھ جاتے ہیں جس سے ہرچیز کی قیمت متاثر ہوتی ہے۔ مشکل وقت ہر قوم پر آتا ہے اس کا پوری قوم مل کا مقابلہ کرتی ہے۔  ایسے میں ضروری ہے کہ حکومتی خرچوں کو کم کرنے پر توجہ دی جائے اور عام شہری کی بجائے ان لوگوں پر پٹرول کے حوالے سے بوجھ ڈالا جائے جو ماہانہ لاکھوں روپے کمانے والے اپنا پٹرول کا خرچ خود برداشت کرسکتے ہیں۔ موٹرسائیکل، رکشہ، سوزوکی و ٹیکسی والوں اور غریب عوام پر ان کا بوجھ ڈالنا  مناسب نہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، پیرس کلب، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر جو قرضے لئے گئے ان  سے بھی اس طرح استفادہ کیا جائے کہ وہ پیدواری قسم کی سرگرمیوں میں معاون ہوں اسطرح اگر حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانا چاہتی ہے۔ توجاگیر داروں، کارخانے داروں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان، بڑے تاجروں، سمگلروں اور کالا دھن رکھنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں کسی بھی حکومت نے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی جرات نہیں کی اب جبکہ موجودہ حکومت نے کئی شعبوں میں جرات کے ساتھ اصلاحات کی ہیں اور ان کے فوائد بھی سامنے آنے لگے ہیں تو ٹیکس نیٹ میں اضافے کے معاملے میں موجودہ حکومت سے ہی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ حکومت اگر بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے  کے ذریعے معیشت کو مستحکم کرے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے تو یہ نہ صرف موجودہ مشکل حالات سے نکلنے میں معاون ہوگا بلکہ عام شہریوں کو بھی کسی نہ کسی حد تک ریلیف دینے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر نے عوام کومتاثرکیا ہے ایسے حالات میں حکومت نے جو ریلیف دینے کے پہلے ہی اقدامات کئے ہیں ان کا تذکرہ نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ تاہم عام آدمی بجا طور پر مزید ریلیف کی توقع کرتا ہے۔