خاموش تکلم

چار اپریل دوہزارسترہ: خیبرپختونخوا کے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’پراونشیل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (پی ڈی اے)‘ کی جانب سے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تحریری و تفصیلی مراسلہ ارسال کیا گیا جس میں 19 ایسے مقامات کی نشاندہی کرتے ہوئے اُن رہائشگاہوں کی فہرست بھی دی گئی جو محکمہئ صحت کے ہیں اُور جن میں غیرمتعلقہ (دیگر حکومتی محکموں) کے افراد مقیم ہیں۔ ’پی ڈی اے‘ کے صدر ڈاکٹر امیر تاج خان کے دستخطوں سے اِس مراسلے کے آخر میں ’مؤدبانہ گزارش (humble request)‘ کی گئی کہ غیرقانونی رہائش پذیر افراد سے رہائشگاہوں کو واگزار کرایا جائے کیونکہ اُن پر ڈاکٹروں اور طبی عملے کا اصل حق ہے۔اکتیس دسمبر دوہزاراکیس: 4 سال 8 ماہ اور 28 دن کے بعد محکمہئ صحت کی جانب سے سیکرٹری ہیلتھ کے دستخطوں سے ایک اعلامیہ جاری ہوا جس میں ’پی ڈی اے‘ کے مذکورہ مراسلے کا حوالہ دیئے بغیر اِس بات کو تسلیم کیا گیا کہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں محکمہئ صحت کی رہائشگاہوں میں غیرمتعلقہ افراد مقیم ہیں اور اِن رہائشگاہوں کو واگزار کرانے کے لئے 6 اقدامات تجویز کئے گئے اور ہر ضلع میں محکمہئ صحت کے متعلقہ انتظامی نگرانوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اپنے ہاں موجود رہائشی سہولیات کی فہرست مرتب کریں اور اِس فہرست کو اپنے اپنے متعلقہ ضلعی نگران (ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر) کو ارسال کریں اور یہی فہرست متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کو بھی ارسال کی جائے جو اِس سلسلے میں اجلاس طلب کر کے لائحہ عمل مرتب کریں کہ کس طرح محکمہئ صحت کی رہائشگاہوں کو پولیس کی مدد سے واگزار کرایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پولیس کی خدمات سے استفادہ اُنہی مقامات پر کیا جائے گا جہاں غیرمتعلقہ رہائشی رضاکارانہ طور پر قبضہ ختم نہ کریں۔ اِس سلسلے میں 31 جنوری 2022ء کی تاریخ مقرر کی گئی ہے اور اگر کسی ضلع میں محکمہئ صحت کے نگران عدم دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے تو اُن کے خلاف محکمانہ کاروائی کا عندیہ اعلامیہ کا حصہ ہے جس کے آخری جملے میں ”انتہائی اہم (Most Urgent)“ کے الفاظ بھی درج ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اِس مراسلے کی نقول  سات متعلقہ حکومتی شعبوں کو ارسال کی گئی ہیں لیکن اِس مراسلے کی نقل ڈاکٹروں کی اُس نمائندہ تنظیم (پی ڈی اے) کو مخاطب کرتے ہوئے ارسال نہیں کی گئی جس نے اِس اہم مسئلے کی نشاندہی 1733 دن قبل کی تھی اور اپنے مراسلے کے ہمراہ قبضہ شدہ رہائشگاہوں کی تفصیلات بھی لف کر دی تھیں۔ علاج معالجے سے لیکر علاج گاہوں کے انتظامی امور سے متعلق فیصلہ سازی کرتے ہوئے اگر معالجین (ڈاکٹروں) کی نمائندہ نتظیم کو بھی ایک فریق اور رفیق سمجھتے ہوئے مشاورت (غوروخوض) میں شامل کر لیا جائے تو اِس سے خیروخوبی کا ظہور ممکن ہیبہرکیف قریب چار سال نو ماہ بعد اگر محکمہئ صحت کے فیصلہ ساز بالآخر اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں اُن تمام مکانات کو غیرقانونی رہائشیوں سے خالی کروانے کے لئے ضلعی انتظامیہ (طاقت) کا استعمال کیا جائے تو یہ بھی مقام شکر ہے اور اُمید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے کہ اِس سے ڈاکٹروں کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا جنہیں کام چھوڑ ہڑتال کرنے کے لئے چھوٹے موٹے بہانے کی تلاش رہتی ہے جبکہ ’پی ڈی اے‘ نے رہائشگاہوں کے معاملے پر جس صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے اُس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور لائق ستائش ہے۔ 
ادھورے کاموں کی تفصیل کافی طویل ہے۔ ڈاکٹروں کے لئے رہائشی سہولیات کی فراہمی اور اِن سہولیات کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔جہاں تک غیر متعلقہ افراد سے یہ رہائش گاہیں خالی کرنے کی بات ہے تو یہ کام نہایت ہی آسانی سے بھی ممکن تھا کہ جن سرکاری مکانات پر غیرمتعلقہ افراد قابض تھے اگر اُن کی بنیادی تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات کی ادائیگی روک لی جاتی اور اِن مراعات کی بحالی کو مکانات خالی کرنے سے مشروط کر دیا جاتا تو مہینوں نہیں بلکہ دنوں میں رہائشگاہیں خالی کروائی جا سکتی تھیں۔ دوسری اہم بات اُن سرکاری ملازمین کا نکتہئ نظر ہے‘ جنہیں یہ مکانات مفت یا خیرات و احسان میں نہیں بلکہ سرکاری ملازمتوں کی وجہ سے دیئے گئے ہیں اور اُن کا مطالبہ ہے کہ حکومت جب تک متبادل رہائشگاہیں فراہم نہیں کرتی‘ اُس وقت تک اُنہیں گھروں سے بیدخل نہ کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت اُن کے اہل خانہ (بیوی بچوں) بے جرم نفسیاتی دباؤ سے گزریں گے۔ ذہن نشین رہے کہ سرکاری ملازمین کے لئے رہائشگاؤں کی عدم فراہمی کی صورت اُنہیں ماہانہ وظیفہ (کرایہ) تنخواہ کے ساتھ ادا کیا جاتا اور ماضی میں ایسی مثالیں بھی سامنے آ چکی ہیں جن میں سرکاری رہائشگاہیں استعمال کرنے والے تنخواہوں کے ساتھ ماہانہ کرایہ بھی وصول کرتے رہے ہیں اور ایسا ہونے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب کسی محکمے کے اپنے مکانات ہی نہیں ہوتے اور ملازمین اپنے طور کوشش کر کے کوئی مکان حاصل کر لیتے ہیں تو اُس میں رہائش سے متعلق کاغذی کاروائی کرتے ہوئے متعلقہ محکمے کو مطلع نہیں کیا جاتا۔ سرکاری محکموں کی خط و کتابت اور نظم و ضبط مربوط نہ ہونے کی وجہ سے بھی سرکاری وسائل کا استحصال (غلط استعمال) ہونا ایک معمول کی بات ہے۔