اِی گورننس

خیبرپختونخوا محکمہئ مال (ریونیو ڈیپارٹمنٹ) نے 203 موضع جات کی کمپیوٹرائزیشن مکمل کرنے کا اعلان پانچ دسمبر دوہزاراکیس کے روز کیا تھا۔ جن میں شامل ضلع پشاور کی سٹی تحصیل کے 25 موضع جات بھی شامل ہیں۔ خاص بات یہ بتائی گئی تھی کہ پشاور میں آن لائن خدمات کا خصوصی مرکز بھی قائم کر دیا گیا ہے جہاں سے فرد نمبر (جائیداد کے کوائف)‘ جائیداد ملکیت منتقلی‘ کسی شخص کی فوتگی کا تصدیق نامہ‘ لینڈ ریکارڈ کی درستگی‘ رجسٹری کا اندراج اُور دیگر سہولیات ایک ہی چھت تلے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ قبل ازیں اِس کام کیلئے ہفتوں اور مہینوں کا وقت لگتا تھا جبکہ جائز کام کو بھی کم وقت میں نمٹانے کے لئے رشوت دینا پڑتی تھی۔ توقع ہے کہ رواں برس (دوہزاربائیس) کے اختتام تک پورے خیبرپختونخوا کے سبھی موضع جات کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ فی الوقت قریب 2 ہزار موضع جات کی کمپیوٹرایزیشن ہو چکی ہے جبکہ جن اضلاع میں کمپیوٹرائزیشن ہو چکی ہے وہاں مختلف خدمات کے 30 مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ اِس پورے عمل (کمپیوٹرائزیشن) کے علاؤہ خدمات کے معاوضوں میں بھی کمی کی گئی ہے جبکہ مالاکنڈ ڈویژن میں گلوبل انفارمیشن سسٹم (GIS) کی بنیاد پر لینڈ ریکارڈ کی رجسٹریشن ہو رہی ہے جو زیادہ پائیدار ذریعہ ہے اور اِس میں غلطی کا امکان دیگر روایتی طریقوں سے کی گئی پیمائشوں کے مقابلے زیادہ درست رہتا ہے۔ اِسی طرح اسٹامپ پیپرز کو بھی ’الیکٹرانک‘ طریقے سے جاری کرنے کا منصوبہ تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہے جو جلد مکمل ہونے کے بعد سٹامپ پیپرز ’آن لائن‘ حاصل کئے جا سکیں گے اور صارفین کو جو عمومی پریشانی ہوتی ہے کہ اگر کسی شخص کو تیس روپے کا سٹامپ پیپر چاہئے ہوتا ہے تو اُسے ایک سو روپے یا ڈیڑھ سو روپے کا دستیاب سٹامپ پیپر خریدنا پڑتا ہے جبکہ سٹامپ پیپرز کی طلب زیادہ اور دستیابی کم ہونے کی وجہ سے رجسٹرڈ و غیررجسٹرڈ سٹامپ نویس اِسے زیادہ قیمتوں کے عوض بھی فروخت کرتے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ تھانہ‘ کچہری اور محکمہئ مال سے جڑے عوام کے مسائل اگر کمپیوٹرائزیشن (اِی گورننس) کے ذریعے حل ہوں تو یہ ایک ایسا ریلیف ہوگا جس کا نہ صرف عوام مطالبہ کرتے آئے ہیں بلکہ تحریک انصاف دوہزار تیرہ اور دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے قبل اِن کے حل کا وعدہ بھی کر چکی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ادارہ شماریات کے مطابق پشاور کے کل 246 موضع جات ہیں جبکہ ضلع پشاور میں کل 2 لاکھ 35 ہزار 215 مکانات ہیں جن میں باون فیصد سے زیادہ یعنی 1 لاکھ 22 ہزار 685 مکانات پختہ ہیں اور پشاور کی 47.56 فیصد آبادی کو پینے کا پانی ترسیلی نظام کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ اِی گورننس وقت کی ضرورت ہے اور اِس ضرورت سے بالخصوص تحریک انصاف بخوبی آگاہ ہے کہ اِس کے ذریعے نہ صرف حکومتی محکموں کی کارکردگی اور اِن کے معیار بہتری ہو سکتی ہے بلکہ بدعنوانی سے پاک اور شفاف انداز میں قواعد و ضوابط پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے اور یہی آن لائن نظام ’کم خرچ بالا نشین‘ بھی ہے لیکن لمحہئ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں کمپیوٹرائزیشن کا عمل 2013ء میں 7 اضلاع (پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘ بونیر‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان) سے شروع کیا گیا تھا لیکن تاحال (دس برس میں) مجموعی طور پر چالیس فیصد ہی کام مکمل ہو سکا ہے اور پہلے دو برس میں صوبے کی 58 تحصیلوں کے 3500 موضع جات میں سے 350 کمپیوٹرائزیشن ہوئی اُور 6خدمات کے مراکز قائم ہوئے۔ اِس کے بعد تحریک انصاف کی توجہ و ترجیحات سے ایک سال کے اندر چھ مراکز کی تعداد بڑھا کر 24 اضلاع میں مراکز قائم کر دیئے گئے ہیں جبکہ 58 تحصیلوں کی کمپیوٹرائزیشن بھی مکمل کر لی گئی تھی یوں مجموعی طور پر 40فیصد لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کی گئی ہے جبکہ ضلع مردان خیبر پختونخوا کا وہ واحد ایسا ’خوش قسمت‘ ڈویژن ہے جس کے تمام موضع جات کے لینڈ ریکارڈ کی کمپیوئزیشن مکمل کر لی گئی ہے۔ اُمید (توقع) تو تھی کہ یہ اعزاز پشاور ڈویژن کے حصے میں آئے گا لیکن پشاور سے کئے گئے ایسے بہت سے وعدے ہیں جو وفا نہیں ہوئے ہیں۔ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل عام آدمی کی زندگی میں کتنی بہتری لائے گا اُور اِس سے حکومت کی آمدنی کس حد تک بڑھے گی اِس کا اندازہ ’مردان ڈویژن‘ کی 2 کروڑ آبادی کے لئے ’2 سال‘ کے دوران دی گئی خدمات سے لگایا جا سکتا ہے جہاں کمپیوٹروں کے ذریعے 38 ہزار ’فرد نمبر‘ جاری کئے گئے اور ایک ’فرد نمبر‘ زیادہ سے زیادہ 30 منٹ میں جاری ہو جاتا ہے اور یہ ’کرپشن فری‘ طریقہ بھی ہے تاہم تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کمپیوٹرائزیشن کا یہ عمل اب بھی انتہائی سست روی سے جاری ہے اور اِس بات کا امکان مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دے رہا ہے کہ نئے عیسوی سال (دوہزاربائیس) کے اختتام تک پورے خیبرپختونخوا کے لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن ہو چکی ہوگی۔ خیبرپختونخوا حکومت بیک وقت کئی شعبوں کی کمپیوٹرائزیشن کر رہی ہے اور شاید اِس وجہ سے بھی مالی و افرادی اور تکنیکی وسائل کی کمی آڑے آ رہی ہے۔