کروڑ پتی ٹیکس نادہندگان

 ٹیکس کے نظام کو موثر بناکر اور قومی خزانے کو تقویت دینے کے لئے قوانین بنانے والے اراکین پارلیمنٹ خود کتنے ٹیکس دیتے ہیں اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فہرست جاری کی ہے۔ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق سال 2019میں پی ٹی آئی کے ایم این اے محمد نجیب ہارون سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے رکن پارلیمنٹ بن گئے ہیں۔ انہوں نے 14 کروڑ 7 لاکھ 50ہزارروپے ٹیکس ادا کیا۔ اپنے ٹیکس گوشواروں میں محمد نجیب نے اپنی آمدن 1 ارب 87 کروڑ 66 لاکھ روپے ظاہر کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی آمدنی 4 کروڑ 35 لاکھ روپے رہی اور انہوں نے 98 لاکھ 54 ہزار 959 روپے ٹیکس دیا۔ شہباز شریف کی آمدنی 5 کروڑ 63 لاکھ روپے تھی انہوں نے 82 لاکھ 42 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ آصف علی زرداری کی آمدنی 28 کروڑ 26 لاکھ روپے تھی انہوں نے ٹیکس کی مد میں 22 لاکھ 18 ہزار روپے دیے۔بلاول بھٹو نے 3 کروڑ 81 لاکھ روپے کمائے اور5 لاکھ 35 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی آمدنی صرف 9 لاکھ 38 ہزار روپے تھی اور انہوں نے 2019 میں 2 ہزار روپے ٹیکس دیا۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی آمدنی 5 کروڑ 70 لاکھ روپے تھی10 لاکھ 99 ہزارروپے ٹیکس ادا کیا۔شاہانہ طرززندگی  رکھنے والے بعض ارکان پارلیمنٹ نے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔ ایسے 19ممبران قومی اسمبلی وسینیٹرزکی فہرست سامنے آگئی جن کا ٹیکس زیرو ہے جن میں پی ٹی آئی کے پانچ ، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اورمسلم لیگ(ق) کاایک ایک جبکہ جے یوآئی (ف) کے دو ممبران قومی اسمبلی شامل ہیں۔سینیٹرز میں پیپلزپارٹی کے تین، پی ٹی آئی کے دو، مسلم لیگ (ن)، اے این پی اوربلوچستان عوامی پارٹی کا ایک سینیٹر بھی شامل ہے۔ٹیکس نہ دینے والے اراکین پارلیمنٹ میں صنعت کار، کارخانے دار، جاگیر دار،  برآمد کنندگان، بڑے ٹھیکیدار اور تاجر بھی شامل ہیں۔ اور ان کی ماہانہ آمدنی کروڑوں میں ہے۔ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے جن اراکین سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کے نام ٹیکس نادہندگان کی فہرست آئے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی قیادت پر فرض ہے کہ انہیں پارٹی عہدوں سے ہٹانے کے ساتھ کسی بھی عوامی عہدے کے لئے انہیں نااہل قرار دیں۔ قوم کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور امور حکومت چلانے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے  قرضے لئے جارہے ہیں۔ اس معاشی ناانصافی نے عوام کو نظام حکومت اور جمہوریت سے متنفر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچاس فیصد رائے دہندگان بھی عام انتخابات میں ووٹ پول کرنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ان کا موقف یہ ہے کہ ان کے ووٹ سے کونسی تبدیلی آنی ہے۔ اس تمام بحث کا مطلب یہ بھی نہیں کہ تمام ارکان پارلیمنٹ ہی اس زمرے میں شامل ہے بلکہ زیادہ تر اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور نہ صرف قانون سازی کے ذریعے بلکہ اپنے انفرادی ذمہ داریوں کو بھی نبھاتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔