موسم سرما کی شدید لہر کے ساتھ ہی ملک میں کورونا وبا کی نئی اور پرانی قسم سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں غیرمعمولی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ قومی سطح پر مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں ماہ (جنوری دوہزاربائیس) کے پہلے ہفتے میں روزانہ چھ سے سات سو کے تناسب سے کورونا مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں کورونا مثبت کیسیز کی یومیہ شرح بھی ایک اعشاریہ چار فیصد تک بڑھ گئی ہے‘ جو صحت کے حکام اور عوام کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے بڑے شہروں یا آبادی کے مراکز میں کورونا زیادہ تیزی سے پھیلنے کی بنیادی وجہ حفاظتی ہدایات (SOPs) پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ صوبہ سندھ میں تین جنوری کو تین سو اُنتالیس اور ایک ہی دن ایک سو پچاسی نئے کورونا کیسز سامنے آئے جبکہ کورونا وبا پھیلنے کے لحاظ سے ملک کی سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب پہلے نمبر پر ہے۔ تشویشناک امر ہے کہ ملک میں اومیکرون نامی کورونا وبا کی قسم (ویرینٹ) سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں بھی بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ اومیکرون ایسے مقامی افراد میں بھی پایا گیا ہے جنہوں نے بیرون ملک سفر نہیں کیا۔ نئے کورونا کیسز کی تعداد دو ماہ کے دوران زیادہ رہی ہے‘ جسے مدنظر رکھتے ہوئے کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہے کہ نومبر اور دسمبر (دوہزاراکیس) کے دوران‘ کورونا کیسیز تعداد میں کافی کمی آئی تھی۔ اومیکرون کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد قومی اور صوبائی سطح پر فیصلہ سازوں کے لئے تشویش کا باعث ہے‘ جو ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر وہ پہلے سے زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیں گے تو کورونا وبا کی نئی قسم سے متاثر ہونے کے امکانات کے باعث متاثر ہو سکتے ہیں۔ اِس نیم ہنگامی صورتحال میں سندھ نے اعلان کیا ہے کہ صوبے میں اومیکرون قسم کا پھیلاؤ پچاس فیصد تک پہنچ گیا ہے اور اگر سندھ کے اِس اعلان کی روشنی میں دیگر صوبوں میں کورونا وبا کو دیکھا جائے تو صورتحال زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ سندھ حکومت کے اعلان میں ایک تکنیکی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ سندھ کی پوری آبادی کا نصف کورونا سے متاثر نہیں بلکہ یومیہ بنیادوں پر جس قدر بھی کورونا تجزئیات کئے جا رہے ہیں اُن کے قریب نصف یعنی پچاس فیصد میں کورونا پایا جا رہا ہے‘ قبل ازیں یہ شرح ڈھائی سے پانچ فیصد تھی۔ سندھ کے حوالے سے صورتحال کا تشویشناک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہاں کورونا کی پہلی قسم (کووڈ 19) کے مقابلے اومیکرون سے متاثرہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہو چکی ہے اُور چونکہ سندھ کے ساتھ بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹ اُور آمدورفت کے دیگر ذرائع پر پابندی نہیں اِس لئے اومیکرون کے پورے ملک میں پھیلنا خارج ازامکان نہیں ہے۔ اِس صورتحال پر خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں کی یقینا نظر ہوگی کیونکہ سندھ کی آبادی کے ایک بڑے تناسب کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے جن کی آمدورفت سارا سال جاری رہتی ہے۔ کورونا وبا کے حوالے سے جس بڑے پیمانے پر احتیاطی تدابیر مشتہر کی گئی تھیں‘ اومیکرون کے حوالے سے بھی اُتنے ہی بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اگر اِس وقت جبکہ تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی تعطیلات ہیں اور بارشوں کی وجہ سے معمولات زندگی بھی سست ہیں تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو زیادہ سخت اور فوری (بروقت) اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ اگر خدانخواستہ کورونا اور اومیکرون پھیلنے کی شرح یونہی برقرار رہی تو یہ عالمی وبا ایک مرتبہ پھر معمولات زندگی کے علاؤہ معاشی و تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل کا باعث بنے گی۔ پہلے سے موجود مہنگائی اور بیروزگاری سے نمٹنے کے لئے حکومتی حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ اور اِس کی وسیع بھی ضروری ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک کے لئے کورونا وائرس نئی لہر زیادہ سنگین مسائل کا مؤجب بن سکتا ہے۔ کورونا وائرس وبائی مرض کی بگڑتی ہوئی صورت حال نئی شکل کے ذریعے اس سے نمٹنے کے لئے جامع منصوبہ بندی ازحد ضروری ہے جس میں صرف حکومتی مشیروں اور وزرأ ہی سے نہیں بلکہ اِس شعبے کے دیگر ماہرین سے بھی مشاورت ہونی چاہئے۔ چند فوری اقدامات میں بیرون ملک سے آنے والوں پر نظر رکھتے ہوئے ”ٹریول انٹری پوائنٹس“ پر نگرانی سخت کرنا شامل ہے جبکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں کئی ممالک نے بیرون ملک سے مسافروں کی آمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاکہ اُمیکرون پھیلنے سے محفوظ رہا جا سکے۔ اِس منظرنامے میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بیرون ملک سے آنے والے ہر فرد کے لئے ’پی سی آر (PCR)‘ ٹیسٹنگ لازمی قرار دیدی ہے لیکن اومیکرون بہرحال پاکستان میں داخل (وارد) ہو چکا ہے اُور گزشتہ ایک ماہ کے دوران جمع کئے گئے اعدادوشمار سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اِس سے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو متاثرہ مریضوں کی تعداد کے باعث (خدانخوستہ) صورتحال جلد ہی حکومت کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے لیکن اگر فوری توجہ دی گئی تو صورتحال کو سنگین ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ کورونا وبا کے نئے چیلنج کی نازک نوعیت کا اندازہ ان مشکلات سے بھی لگایا جا سکتا ہے جن سے بعض ترقی یافتہ ممالک گزر رہے ہیں۔ ملک بھر میں زیادہ بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم شروع کرنے اور ہر عمر کے لوگوں‘ بالخصوص بزرگوں کے کورونا ٹیسٹوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک طرف حکومت اپنی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے‘ وہیں ہر خاص و عام (عوام) کا بھی یہ ”فرض“ بنتا ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے متعلق موجود ہدایات پر عمل درآمد کریں۔