اُومیکرون: کہیں پانی گزر جائے نہ سر سے!

شاعر ظفر اکبرآبادی نے کہا تھا ”مجھے خدشہ ہے اپنی چشم تر سے …… کہیں پانی گزر جائے نہ سر سے“ اور یہی صورتحال خیبرپختونخوا کو درپیش ہے خدشات اندیشے اور امکانات حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ محل یہ ہے کہ صوبائی محکمہئ صحت نے اِس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا وبا کی نئی قسم ’اُومیکرون‘ کے کم سے کم متاثرہ افراد کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ اِس اطلاع کے ساتھ ہی محکمہئ صحت نے چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا وبا ء سے تین افراد کے انتقال ہونے کی تصدیق بھی کی‘ جس کا مطلب ہے کہ کورونا وبا ء کی نئی قسم ہو یا پرانی‘ ایک تو اِس وبا ء کے پھیلنے کا سلسلہ جاری ہے اور دوسرا اِس وبا ء سے ہلاکتیں ہونے کا سلسلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ جہاں تک کورونا وبا ء کی نئی قسم کا تعلق ہے تو اِس کی پیدائش کسی دور دراز افریقی ملک میں ہوئی جہاں سے سفر کرتا ہوا یہ مختلف ممالک میں پھیل چکا ہے لیکن چونکہ ’اُومیکرون‘ کے پھیلنے اور یورپ و امریکہ سمیت کئی ممالک کی جانب سے نومبر دوہزاراکیس میں افریقہ سے آنے والے مسافروں پر پابندی عائد کی گئی لیکن پاکستان میں ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ پانچ دسمبر دوہزاراکیس تک افریقہ سے پاکستان آنے والوں کے لئے فضائی سفر کی سہولت برقرار رکھی جس کے بعد لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں ’اومیکرون‘ کے کیسز سامنے آئے اور پھر یہ جرثومہ اُن لوگوں میں بھی پایا گیا جو بیرون ملک سے نہیں آئے تھے یا جنہوں نے مستقبل قریب (نومبر دوہزاراکیس سے قبل) کسی ملک کا سفر نہیں کیا تھا۔ خیبرپختونخوا میں ’اُومیکرون‘ کی موجودگی سے متعلق لمحہئ فکریہ یہ ہے کہ جن پانچ افراد میں اِس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے وہ سب کے سب مقامی ہیں اور اُنہوں نے کسی بھی ملک کا سفر نہیں کیا۔ اِس بات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والا ’اومیکرون‘ اب مقامی طور پر پھیل رہا ہے اور یہی اِس نئی کورونا قسم کی خصوصیت ہے کہ پہلی اقسام کے مقابلے زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ معالجین کے مطابق ”کورونا وباء‘‘کی پہلی سبھی اقسام کی طرح ’اُومیکرون‘ سے بچنے کی بھی آسان صورت یہی ہے کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے۔ پرہجوم مقامات پر جانے سے گریز کیا جائے۔ سانس لینے کے دوران چہرہ ڈھانپ کر رکھا جائے اور اِس مقصد کے لئے گھر سے باہر بنا ماسک آمدورفت نہ کی جائے۔ ہاتھوں کو بار بار دھونا اور کھانسی‘ بخار،سردرد‘ پیٹ میں درد اور طبیعت میں بے چینی جیسی کیفیات عمومی حالات میں معمول ہو سکتی ہیں جو معمولی علاج سے رفع ہو جاتی ہوں لیکن چونکہ کورونا وباء کے غیرمعمولی حالات ہیں اِس لئے‘ معالجین تجویز کرتے ہیں کہ مذکورہ کسی بھی علامت کو معمولی نہ سمجھا جائے اور صحت پر نظر رکھی جائے۔خیبرپختونخوا میں ’اومیکرون‘ کی موجودگی بذریعہ ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی تجزیہ گاہ کے ذریعے سامنے آئی‘ جہاں اومیکرون کی تصدیق کے بعد صوبائی وزیرصحت کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے اِس خبر کی تشہیر کرتے ہوئے اِس اُمید کا بھی اظہار کیا گیا اگر عوام ’نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر‘ کی جانب سے جاری ہدایات پر عمل درآمد کریں تو ’کورونا‘ وبا ء کی جملہ اقسام سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔“خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کے منتظم (وائس چانسلر) پروفیسر ضیاء الحق نے بھی پانچ اُومیکرون کیسز پائے جانے کی تصدیق کی اور کہا کہ کورونا کی کسی بھی قسم سے ایسے افراد کے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں جنہوں نے تاحال کسی بھی وجہ سے‘ ویکسین نہیں لگوائی لہٰذا جہاں کورونا سے متعلق احتیاطی تدابیر پر عمل کی ضرورت ہے وہیں ویکسین لگوا کر بھی جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ویکسین کے بعد بھی بیماری کا باعث بننے والا کورونا نامی جرثومہ جسم میں داخل ہو تو اِس کے جان لیوا مہلک اثرات کم ہو جائیں گے۔ اُمید ہے کہ اُومیکرون کے خیبرپختونخوا میں ظاہر ہونے کے بعد وہ سبھی افراد جنہوں نے ابھی تک ویکسی نیشن نہیں کروائی‘ اِس حفاظتی مرحلے کی تکمیل میں مزید تاخیر نہیں کریں گے۔ دانشمندی اِسی میں ہے کہ اپنی قسمت اور جسمانی قوت مدافعت کا امتحان لیتے ہوئے کورونا وبا ء کا مقابلہ کرنے کی بجائے اِس سے بچاؤ کی کوشش کی جائے۔اُومیکرون سے متاثرہ 5 مریضوں کا تعلق ضلع پشاور سے ہے۔ اِن میں ایک ہی خاندان کے 4 افراد شامل ہیں جن کی عمریں 10 سے 50 سال کے درمیان ہیں۔ تین مردوں اور دو خواتین پر مشتمل اِن پانچ افراد کی شکل میں کئی سوالات کے جوابات ملے ہیں جیسا کہ کورونا وبا ء کا نیا جرثومہ ہر عمر اور جنس کو متاثر کر سکتا ہے اُور یہ ہر عمر کے لئے یکساں خطرناک ہے۔ عوام کو یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے پاس ’اُومیکرون‘ جرثومے کی جانچ کرنے کی سہولت محدود ہے اور اگر حال ہی میں ’عالمی ادارہئ صحت بذریعہ ’این سی اُو سی‘ خیبرپختونخوا کو ’اومیکرون‘ کی جانچ کرنے والے ادویات نہ دیتا تو جن پانچ افراد میں اُومیکرون کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے وہ بھی معلوم نہ ہوتے۔ دوسرا اہم پہلو اُور زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ ضلع پشاور سے یومیہ بنیادوں پر جس قدر بھی کورونا تجزئیات کئے جاتے ہیں اُن میں سے پچاس فیصد میں کورونا مثبت آ رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور میں اب تک کورونا سے 5 ہزار 938 اموات ہو چکی ہیں جبکہ 599افراد کورونا سے متاثر ہیں اور اِن میں یومیہ اوسطاً بیس سے تیس نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر خیبرپختونخوا میں 1لاکھ 81ہزار 573افراد کورونا وبا سے متاثر ہو چکے ہیں‘ جن میں سے اکثریت صحت یاب ہو چکی ہے۔ معالجین متنبہ کر رہے ہیں اور توجہ دلا رہے ہیں کہ کورونا وباء کی کوئی بھی قسم ہو‘ یہ یکساں مہلک جرثومہ (وائرس) ہے لہٰذا دانشمندی اِسی میں ہے کہ کورونا وبا کو معمولی نہ سمجھا جائے اُور اِس سے بچاؤ کے لئے ہر ممکن حد تک کوشش کی جائے۔ احساس ذمہ داری اُور احتیاط سے کام لیا جائے تو اِسی میں ذاتی اُور گردوپیش میں رہنے والوں کا فائدہ پوشیدہ ہے۔