لیجئے صاحب گزشتہ ہفتہ عشرہ میں موسم بارشوں کی حد تک تو خاصا بدل گیا ہے‘خنکی بھی بڑھ گئی ہے، عجب حسن اتفاق ہے کہ میں نے گزشتہ ہفتہ پشاور سے امریکہ تک کے موسم کی بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب کے زمستان سے بادل روٹھے ہوئے ہیں اور پشاور کے باسی تو ابھی تک موسم سرما کی پہلی بارش کی راہ دیکھ رہے ہیں اور امریکہ کی ریاست کولو راڈو کے شہر ڈینور جہاں کے موسم کو سب سے زیادہ بے اعتبار کہا اور سمجھا جاتا ہے اور جہاں بہت سے پہاڑی علاقوں سے بہت پہلے برف باری شروع ہو جاتی ہے اور پھر بہت دیر تک ہوتی رہتی ہے۔وسط اپریل تو عام سی بات ہے کسی کسی جگہ تو جون میں بھی برف باری اپنا جلو ہ دکھاتی ہے اسی لئے کولوراڈو کو سکیننگ کے رسیا لوگوں کی جنت کہا جاتا ہے اور اس گیم کے حوالے سے بڑا میلہ وہیں لگتا ہے، ہمارے ہاں مالم جبہ، محدود پیمانے پر ہی سہی گزشتہ چند برسوں سے سکیننگ کا مرکز بن گیا ہے،مگر ڈینورمیں بھی ہفتہ عشرہ پہلے تک موسم کی پہلی بھرپور برف باری نہیں ہو رہی تھی، ادھر پشاور میں بادل اکھٹے ہوئے ادھر ڈینور کو پہلی پہلی برفباری نے سفید چادر اوڑھا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے درجہ حرارت منفی پندرہ منفی سترہ کی خبر دینے لگا۔ادھر پشاور میں بارش نے مستقل ڈیرے لگا رکھے ہیں اور نشیبی علاقے گلیوں کی بجائے نہریں بنے ہوئے ہیں، وہ جو بارش کے روٹھنے کی بات میں نے کی ہے اس کا اب یہ جواب ہے کہ بادل اور گہرے بادلوں نے دھوپ کو چھٹی پر بھیجا ہوا ہے اور خود مسلسل برس رہی ہے۔بس ایک بات ہی تو کی تھی کالم میں مگربارش تو جیسے اب تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ آرزو لکھنوی یاد آ گئے۔
ہاتھ سے کس نے ساغر ٹپکا موسم کی بے کیفی پر
اتنابرسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
خیر بادل ہوں یا بارش وہ تو کالم نہیں پڑھتے اپنے پروگرام کے مطابق آتے ہیں چلے جاتے ہیں لیکن جو مہرباں دوست کالم پڑھتے ہیں کسی کسی کالم کے جواب میں وہ کشٹ کھینچ کر اپنی بات بھی پہنچا دیتے ہیں، گزشتہ ایک کالم میں میں نے جواں سال اور جواں فکر شاعر لیاقت عدیل سے پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج ٹوپی کے پرنسپل شاعر و نقاد نصیرالدین تاجک کا بھی ذکر کیا تھا،تو اس کالم کی اشاعت کے دن مجھے ایک فون آ یا،انہوں نے اپنا نام معیز الدین بتایا اور کہا کہ آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آ پ نے میرے مرحوم بھائی شاعر و ادیب نصیر الدین کا ذکر اپنے کالم میں کیا، پھر بہت دیر تک ہم مرحوم کے علم و فضل اور ان کے حسن اخلاق کی باتیں کرتے رہے۔ مجھے یاد آیا کہ انہوں نے کچھ عرصہ اپنے نام کے ساتھ تاجک لکھا مگر پھر جانے کیوں ترک کر دیاتھا، تو معیز الدین نے بڑے مزے کی بات سنائی کہ کچھ عرصہ وہ نصیر الدین طالب کے نام سے بھی لکھتے رہے، مگر جب طالبان خبروں میں آ گئے تو انہوں نے پھر طالب لکھنا بھی چھوڑ دیا، اس پر مجھے مرحوم دوست تقی شراب ہاشمی یا د آگئے بہت عمدہ شخصیت بڑے اچھے پشتو کے شاعر اور یاروں کے یار تھے۔ ریڈیو‘ٹی وی کے مشاعروں میں بھی شریک ہوتے مگر لطیفہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ بعد اچانک انہیں ریڈیو اور ٹی وی کے مشاعروں میں شرکت کا بلاوا آنا بند ہو گیا‘حالانکہ ان دنوں وہ ڈائریکٹر اطلاعات کے عہدے پر تھے تو شاید کسی دوست سے انہوں نے پو چھا تو انہیں جو وجہ بتائی گئی وہ بلا کی دلچسپ تھی‘یہ ستر کی دہائی کے اواخر کا زمانہ تھا۔ایک حکم جاری ہوا تھا کہ فی الفور تمام تر نصابی کتب سے لفظ ”شراب“ کو ہٹا دیا جائے اور ساتھ ہی نشریاتی اداروں کو بھی ہدایات جاری کر دیں کہ اب کے بعد ایسا کچھ بھی نشر نہ کیا کائے جس میں لفظ ”شراب“ آئے چنانچہ ریڈیو ٹی وہ پر وہ تمام گیت‘غزلیں ممنوع قرار پائیں جن میں لفظ شراب آ تا تھا، نصاب کی کتب کو بھی نئے سرے سے مرتب کیا گیا اور اس میں سے شراب کا لفظ نکال دیا گیا‘مرتبین نے لفظ شراب تو نکال دیا مگر بادہ،مئے اور دختر رز قسم کے الفاظ رہنے دیئے اس سے اساتذہ مشکل میں پڑ گئے کہ اب ان لفظوں کا کیا کیا جائے جن کا ترجمہ شراب ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ مخبر جا کر بتا دے کہ فلاں پروفیسر نے بھر ی کلاس میں شراب کا لفظ استعمال کیا۔خیر یہ تو معلوم نہیں کی کسی استاد کے ساتھ ایسا کچھ ہوا یا نہیں مگر ہمارے دوست تقی شراب ہاشمی پر اعلیٰ افسر ہونے کے باوجود ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے دروازے بند ہو گئے، کیونکہ ان کا تخلص ”شراب“ تھا اور اس لفظ کے نشر ہونے پر پابندی تھی۔
لذید بود حکایت دراز تر گفتم
پروفیسر نصیرالدین نے بوجوہ اپنا تخلص طالب ترک کر دیا تھا اور تقی شراب ہاشمی نے نئی صورت حال کے مطابق اپنا نام ”تقی ایس ہاشمی“ رکھ دیا تھا بعد کے زمانے میں یہی ان کا نام لکھا اور پڑھا جاتا رہا معیز الدین نے اپنے مرحوم بھائی کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ ان کا بہت سا کام نظم اور نثر میں غیر مطبوعہ موجود ہے،اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ کم از کم ان کی شاعر ی کا مجموعہ شائع ہو جائے۔ اللہ انہیں کامیاب کرے کہ بچھڑنے والوں کا یہ پیچھے رہ جانے والوں پر قرض ہوتا ہے، بہت سے لوگ اس خسارے کا ادراک نہیں رکھتے، میرے سامنے ایک بہت عمدہ اور قابل تقلید مثال مرحوم غلام محمد قاصر کے بچوں اور ان کی والدہ کی ہے کہ انہوں نے غلام محمد قاصر کا سارا غیر مطبوعہ کلام ان کے کلیات میں یکجا کردیا ہے۔ میں نے اس کالم میں ایک فقرہ یہ بھی لکھا تھا کہ ”نہ جانے اب وہ جواں فکر شاعر لیا قت عدیل کہاں ہے“ تو معیز الدین نے مجھے یہ بھی بتایا کہ لیاقت عدیل اب اس دنیا میں نہیں ہے،یہ سن کر مجھے تو جیسے سکتہ ہو گیا،میں تفصیل نہ پو چھ سکا، میسنجر کھولا تو معروف شاعر،ادیب اور کالم و ڈرامہ نگار دوست عزیز پرفیسر ڈاکٹر ہمایون ہما کا میسج نظر آیا انہوں نے تفصیل سے لکھا تھا کہ آپ نے کالم میں استفسار کیا تھا تو لیاقت عدیل کچھ عرصہ پہلے ترکی میں ایک حادثہ میں چل بسے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم اپنے معمولات میں کتنے الجھے رہتے ہیں کہ ان دوستوں کی خیر خبر بھی رکھنا چھوڑ دیتے ہیں جن کی وجہ سے کبھی ہمارے شب و روز بہت خوب صورت رہا کرتے تھے ہم تو جمال احسانی کی طرح اتنا بھی نہ کر سکے کہ
چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا
اوراس دل کو تری خیر خبر پر رکھا