عالمی سطح پر جس طرح یکطرفہ طورپر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم جاری ہے اس نے مغرب کانام نہادروشن خیال چہرہ بے نقاب کرکے رکھ دیاہے اورجب یہ گستاخانہ مہم عروج پر پہنچی تو اب امریکہ اور روس دونوں کی طرف سے حیران کن اورمثبت پیشرفت بھی سامنے آئی ہے کسی بھی مذہب کی بے حرمتی، کسی کے بھی معبود کی اہانت اور کسی بھی مقدس مذہبی ہستی کی شان میں گستاخی ہر معاشرے میں قانون کی رو سے جرم نہ بھی سہی تو بھی ہر مہذب معاشرے میں اخلاقی جرم بہر حال تصور کی جاتی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں کسی کی مذہبی اقدار اور کسی کے مذہبی عقائد کا مذاق اڑانا قانون کی رو سے کوئی جرم نہیں ہے۔ کسی بھی مغربی ملک کے آئین میں کسی ایسی دفعہ کا ذکر نہیں ملتا، جس کے تحت ایسا کرنے والے کو سزا دی جائے۔ اس ضمن میں بس ایک استثنیٰ ہے۔ یہودیت دنیا کاوہ واحد دین ہے، جس کے بارے میں کوئی غلط بات کہنے سے پہلے حد درجہ احتیاط برتی جاتی ہے۔ یہ احتیاط نہ برتنا کسی کو بھی بیحد خطرناک صورت حال سے دو چار کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل اور عام طور پر دنیا بھر کے اسرائیلیوں کے معتقدین کا دعویٰ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر نے چیمبروں میں قید 60لاکھ یہودی مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا تھا۔ اسے ہولو کاسٹ کہا جاتا ہے۔ اب اس ہولوکاسٹ کی بابت اگر کوئی صرف یہ کہہ دے کہ ہلاک شدگان کی تعدا د 60 لاکھ نہیں تھی اور یہ امر مشکوک ہے تو اسے جرم خیال کیا جاتا ہے۔ بعض یورپی ممالک میں تو ایسا کہنے والوں کو پکڑ کر بند کیا جاتا ہے، گرفتار پہلے کر لیا جاتا ہے اور گرفتاری کی وجہ بعد میں دریافت یا ایجاد کی جاتی ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یورپ اور امریکہ میں صیہونی یہودی لابی کا زبردست اثر رسوخ ہے، جبکہ کچھ مبصرین اسے ہٹلر کی سفاکی کے حوالے سے مغربی دنیا کا احساس جرم سمجھتے ہیں۔مگر اسی مغربی دنیا میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے حوالہ سے سوچ و فکر شرمناک حدتک مختلف دکھائی دیتی ہے کیونکہ نائن الیون سے پہلے بھی مغربی دنیا میں توہین رسالت ایک عام بات بن گئی تھی۔ مغربی یورپ میں یہ وبا ء عام تھی۔ اس سلسلہ میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ دینا بھی عام بات تھی نائن الیون کے بعد ”اسلامی دہشت گردی“ کی ایک نئی اصطلاح معرض وجود میں آئی۔امریکہ میں اسے عراق،شام اور افغانستان پر حملوں کے لئے بطور جواز استعمال کیا گیااسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ متموّل اور مالدار مسلم ممالک نے کبھی اس پر صدائے احتجاج نہیں بلند کی۔ حالانکہ ان میں سے کچھ پٹرول کے ذخیروں سے مالا مال تھے اور چاہتے توپٹرول کو ہتھیار کی طرح استعمال کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ہمیشہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔لیکن دو وجوہات کی بناء پر حالات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ ایک تو یہ کہ جنگ کے میدانوں میں مغربی طاقتوں کی پیہم شکستوں نے دنیا بھر میں دبے کچلے لوگوں کو ان کے خلاف کھڑے ہونے اور مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ دیا۔دوسرے کچھ مسلم رہنماؤں نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر امریکہ اوریورپ کو ان کے دوہرے معیاروں کے لئے بے خوف ہو کر چیلنج کیا۔سب سے پہلے ایک چھوٹے اور ترقی پذیر ملک ملیشیا ء کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کہا کہ یہ صورت حال قطعی قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اسلامو فوبیا کو للکارا۔ یہ دونوں لیڈر نہ صرف اپنے اپنے ملک میں مقبول تھے، بلکہ ان کی ایشیا ء میں بھی بہت عزت کی جاتی تھی۔ ترکی چونکہ نیٹو کا رکن بھی ہے اس لئے اردگان کی آواز مغربی دنیا میں بھی سنی گئی۔ اس کے بعد جب اقوام متحدہ کے عام اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مغرب امت مسلمہ کی رسول اکرم ﷺسے محبت کی کیفیت سمجھنے سے قطعی قاصر ہے، کیونکہ مغرب کی گمراہ کن روشن خیالی اسے اس محبت کو سمجھنے کی اجازت ہی نہیں دیتی، تو ان کی تقریر کی باز گشت ساری دنیا میں سنی گئی۔ عمران خان ایک کھلاڑی کی حیثیت سے یوں بھی ساری دنیا میں جانے جاتے تھے۔ ایک دانشورانہ سطح کی ان کی نہایت سلیس اور بلیغ انگریزی زبان کی تقریرعالمی میڈیاکے لئے بریکنگ نیوز بن گئی۔ ان لیڈروں کی آوازوں کی باز گشت امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بھی سنائی دی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں نے نسلی امتیاز اور سیاہ فاموں سے برتے جانے والے امتیاز کے ساتھ ہی اسلامو فوبیا کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ جس کے مغرب کو احساس ہوا کہ اسے اپنے نظریات پر نظر ثانی کرنی پڑے گی گزشتہ دنوں ایک بہت غیر متوقع لیکن مثبت پیشرفت ہوئی۔ امریکی ریاست منی سوٹا سے منتخب ڈیموکریٹ رکن الحان عبداللہ عمر نے کانگریس میں ایک قانون وضع کرنے کی تجویز پیش کی۔ تجویز کے مطابق اس قانون کے تحت اسلامو فوبیا کو امریکہ میں ایک قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔ تجویز اکثریت سے منظور کر لی گئی۔ جو بائیڈن نے خود تجویز کی حمایت کی۔ کانگریس کی منظوری کے بعد ایک کمیٹی کی تشکیل کی گئی ہے جو عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کی وارداتوں پر نگاہ رکھے گی اورپابندی سے وزارت خارجہ کو رپورٹ بھی پیش کرتی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمیٹی لنچنگ کی وارداتوں کی بھی رپورٹ دے گی۔ الحان عمر2020ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر امریکی کانگریس کی ممبر منتخب ہوئی ہیں۔ ان کا تعلق صومالیہ سے ہے۔ الحان امریکی کانگریس کی واحد حجاب پوش ممبر ہیں اور روزے نماز کی پابند بھی ہیں۔ ان کے اس اقدام نے انہیں امریکہ کے سیاہ فاموں میں بہت مقبول کر دیا ہے۔ کانگریس سے منظوری کے بعد یہ تجویز اب اگلے ماہ سینیٹ میں پیش کی جائے گی امریکی سینیٹ میں ایک سو ممبر ہوتے ہیں۔ فی الوقت سینیٹ میں ریپبلیکن پارٹی کے پچاس اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اڑتالیس ممبر ہیں۔ دو آزاد ممبر ہیں۔ لیکن الحان کو یقین ہے کہ دونوں آزاد ممبر بھی تجویز کے حامی ہیں۔ یعنی تجویز کے حامیوں اور مخالفین کی تعداد برابر ہے۔ ایسی صورت میں اگر ووٹنگ ہوئی اور فریقین کے ووٹ برابر نکلے تو سینیٹ کی چیئرپرسن کو ووٹ دینے کا حق مل جاتا ہے۔ سینیٹ کا چیئرپرسن نائب صدر ہوتا ہے۔ اس وقت نائب صدر کملا ہیرس ہیں جو امریکہ میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی نقیب سمجھی جاتی ہیں۔ یعنی قانون کا بننا اب یقینی ہے۔اسی طرح گذشتہ دنوں روسی صدتر ولادیمر پوتن نے سال رواں کی آخری پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں کہی جا سکتی، یہ سراسر دل آزاری ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں میں یہ سن کر خوشی اور تشکر کا اظہار کیا جا رہا ہے طاقتورترین ملک کے رہنما کی طرف سے اس قسم کامؤقف یقینا عالمی سطح پر مثبت پیشرفت قراردی جاسکتی ہے عالم اسلام کے قائدین کو ابھی اس حوالہ سے مزید مؤثر انداز میں اپنے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرنی ہے۔