کرہئ ارض پر زندگی کا ظہور اور اِس کی بقاء جن تدریجی مراحل اور عوامل کا ماخذ ہے اُن میں کہیں بھی جبر اور زبردستی نہیں بلکہ کسی بھی خوبی اور اِس کے ارتقا ء و نشوونما کا تعلق فطرت کے بنائے ہوئے عدم تشدد کے اصولوں پر منحصر دکھائی دیتا ہے جن کا حاصل ”ذہنی و فکری ہم آہنگی‘‘ہوتی ہے۔ اِس تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے رکن ممالک بطور عالمی تحریک اِس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ”تعلیم کے عمل میں کسی بھی قسم کی جسمانی سزا نہیں دی جائے گی اور ایسی سزاؤں کو بچوں کے عالمی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔ ذہن نشین رہے کہ اقوام متحدہ کا بچوں کے حقوق سے متعلق منظورشدہ لائحہ عمل کہتا ہے کہ ”بچوں کو دی جانے والی کسی بھی نوعیت کی سزا یا اُن پر کسی بھی قسم کا بھی ایسا دباؤ جس کے نتیجے میں وہ جسمانی طور پر تکلیف (درد) بے چینی یا بے آرامی محسوس کریں‘ عالمی قانون کی خلاف ورزی تصور ہوگی“ یعنی یہ بات قانوناً جرم ہوگی کہ کسی بھی بچے پر تشدد کیا جائے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں عالمی قانون کے تحت سن بلوغت (اٹھارہ برس) تک بچوں کے خصوصی حقوق کا اطلاق رہتا ہے جو انسانی حقوق کے عالمی منشور کا حصہ ہے۔عالمی معاہدات کو تسلیم کرنے کی حد تک پاکستان دنیا کے انتہائی ذمہ دار ممالک میں شامل ہے جیسا کہ پاکستان دنیا کے اُن 69 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے تدریسی مراحل کے دوران کسی بھی قسم یا نوعیت کی جسمانی یا ذہنی سزا دینے کی ممانعت سے اتفاق کر رکھا ہے اور ایک عالمی معاہدے کے تحت وعدہ کیا ہے کہ پاکستان میں سرکاری یا نجی‘ اعلیٰ یا ادنیٰ کسی بھی درجے کے تدریسی عمل کے دوران طالب علموں کو سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ ایسا کرنے کی صورت جہاں ایک طرف تدریس کا عمل رک جاتا ہے‘ وہیں ”سزا کے خوف کے باعث“ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد باقاعدگی درسی عمل سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔ تعلیم (شرح خواندگی) میں اضافے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو تعلیمی اداروں میں اُن کے مزاج اور جسمانی و ذہنی طاقت کے موافق و مطابق ماحول (سہولیات) فراہم کی جائیں جبکہ کم عمری کے تعلیمی مدارج میں اگر بچوں کی جسمانی اور نفسیاتی کمزوریاں کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تو اِس سے اُن کی نہ صرف فوری (موجودہ) تعلیم کارکردگی متاثر ہوگی بلکہ اگر وہ تعلیم کے سلسلے کو جاری بھی رکھیں گے تو اُن کے ذہن و نفسیات پر خوف طاری رہے گا اور ماہرین توجہ دلاتے ہیں کہ ایسے بچے جن کے ذہنوں میں خوف گھر کر چکا ہو وہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں مقابلتاً دیگر بچوں کے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے اور اُن کی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے۔ اُن میں اطمینان اور خوداعتمادی کی کمی رہتی ہے جو شخصیت پر حاوی منفی اثرات (پرچھائیوں) کی عکاسی کرتا ہے۔لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں 44 فیصد بچے‘ جن کی عمر 5 سے 16 سال کے درمیان ہیں باقاعدگی سے اُس تعلیمی بندوبست کا حصہ نہیں جو سکول یا مدرسہ کہلاتا ہے۔ یہ بچے کسی بھی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کرتے اور اپنی عمر کا وہ ابتدائی حصہ جو کسی تعلیمی ادارے کے نظم و ضبط والے ماحول میں گزرنا چاہئے سکولوں (تعلیمی اداروں) سے باہر بسر کر دیتے ہیں۔ اِس صورتحال کا ایک ”تاریک پہلو‘‘یہ بھی ہے کہ سکولوں سے استفادہ نہ کرنے والے بچوں میں ایک تعداد ایسے بچوں کی بھی ہوتی ہے جو صرف اِس وجہ سے سکولوں کو نہیں جاتے یا سکولوں کو چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ وہاں اُن کے ساتھ سختی سے پیش آیا جاتا ہے۔ سال 2012ء میں آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے بارے میں ایک جائزہ (سروے) کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ 89 فیصد تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بچوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔عالمی وعدے اپنی جگہ اہم‘ عالمی معاہدے اپنی جگہ اہمیت کے حامل لیکن بچوں سے شفقت بھرے سلوک کی تعلیم اسلامی تعلیمات کا بھی حصہ ہے اور اگر اسلام کے شفقت بھرے طرز معاشرے بشمول تعلیم و تعلم کو سمجھ لیا جائے تو بہت سی خرابیاں درست اور بہت سی مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ یہی باعث انقلاب سوچ کی برکت سے تعلیم اپنے حقیقی مقصد سے بھی نزدیک تر ہو سکتی ہے۔