مقروض کبھی سرنہیں اٹھاسکتا

 وزیر خزانہ شوکت ترین نے انکشاف کیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیکس نہ دینے والوں تک پہنچ چکے ہیں بس بٹن دبانے کی دیر ہے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر لوگوں کو بتائیں گے کہ ان کی آمدن کتنی ہے، اب ہم سب کو سیلز اور انکم ٹیکس دونوں دینا پڑے گا، ملک کو اس وقت ٹیکس کی ضرورت ہے ادھارلیکرملک کب تک چلایا جائے گا۔ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی ہوگی۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے ٹیکس نہیں دیتے،ملک میں صرف بیس لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ ٹیکس دینے کے قابل لوگوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ ٹیکسوں کا نظام خودکارہونے سے محصولات بڑھیں گے، جب لوگوں کوسہولت ہوگی تو زیادہ ٹیکس بھی دیں گے،شوکت ترین نے بتایا کہ جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں جو شخص ٹیکس ادا نہیں کرتا وہ ووٹ نہیں ڈال سکتا،وقت آگیا ہے کہ سب لوگ اپنا ٹیکس دینا شروع کردیں، وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لوگ ایک وقت میں کھانے کا 30سے 40ہزار بل دیتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے۔یہ حقیقت ہے کہ جب تک لوگ ٹیکس ایمانداری سے ادا نہیں کریں گے ملک مقروض ہی رہے گا اور ہم مالیاتی اداروں کے آگے کشکول پھیلاتے رہیں گے اور جو لوگ ہمیں قرضہ دیتے ہیں وہ اپنی شرائط منواتے رہیں گے۔ ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ ٹیکسوں کے نظام میں نقائص ہیں۔ لوگوں کو یہ اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ ان سے وصول کی جانے والی رقم کی پائی پائی قومی خزانے میں جمع ہوگی اور ٹیکسوں کی رقم ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے خرچ کی جائے گی۔ اب بھی کہا جاتا ہے لوگ جتنا ٹیکس دیتے ہیں اس کا دو تہائی حصہ قومی خزانے کے بجائے چند لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ماضی میں حکومتوں نے نظام کو شفاف بنانے کے بجائے نام بدلنے پر اکتفا کیا۔ سینٹرل بورڈ آف ریونیو کا نام فیڈرل بورڈ آف ریونیو رکھنے سے ٹیکس نیٹ نہیں بڑھ سکتا۔ آج تک کسی حکومت کو زرعی ٹیکس نافذ کرنے کی جرات اس لئے نہیں ہوئی کیونکہ اسمبلیوں اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر براجمان تمام لوگ بڑے بڑے جاگیر دار، سرمایہ دار اور صنعت کار ہیں۔ وہ فصلوں اور باغات کی پیداوار سے سالانہ اربوں روپے کماتے ہیں مگر ان کی کمائی کا کوئی ریکارڈ سرکار کے پاس نہیں ہوتا۔ اسی طرح خدمات کے عوض جو لوگ سالانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں ان کا بھی سرکار کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں‘اور لاکھوں کروڑوں کے ٹیکس بچائے جاتے ہیں۔ وزیرخزانہ کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس نادہندگان تک پہنچنے کی بات اگر درست ہے تو یہ حوصلہ افزاء ہے۔ ایف بی آر کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ساتھ جو سرکاری اہلکار ٹیکس چوری کے سہولت کار رہے ہیں ان پر بھی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔یہ بھی قومی امانت میں سنگین خیانت ہے اور ان سے لوٹی گئی قومی دولت واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرکے ہی ٹیکس دہندگان کا اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس نادہندگان اور ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین بھی بنانے کی ضرورت ہے جو شخص اس قومی جرم میں ملوث پایاگیا اسے تاحیات کسی بھی سرکاری ملازمت اور عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔خود انحصاری کی منزل تک پہنچنے کے لئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ اور کچھ پیشہ ور چوروں کو عبرت ناک سزائیں دینا ضروری ہے۔ اگر ہم باوقار قوم بننا چاہتے ہیں تو اپنے وسائل پر انحصار اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیونکہ مقروض کبھی سراٹھاکر نہیں جی سکتا۔