افغانستان میں اِقتدار کی تبدیلی (پندرہ اگست) کے بعد سے ہر حکومتی اِقدام کا ’تنقیدی جائزہ‘ لیتے ہوئے مغربی ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا صارفین طالبان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ میانہ روی اختیار کریں۔ ذہن نشین رہے کہ پندرہ اگست دوہزاراکیس کے روز دارالحکومت کابل میں داخل اور انتہائی غیرمتوقع طور پر بنا کسی مزاحمت کا سامنا کئے اقتدار میں آنے کے بعد ’سات ستمبر دوہزاراکیس‘ کے روز طالبان کابینہ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ایک اوراعلان ’تیرہ ستمبر دوہزاراکیس‘ کے روز ’وزارت تعلیم‘ کی جانب سے سامنے آیا تھا جس میں یونیورسٹی طالبات کے لئے ’ڈریس کوڈ‘ کا اعلان کیا گیا اور جامعات میں زیرتعلیم طالبات کے لئے ’پردہ‘ لازمی قرار دیا گیا۔ اِس حکمنامے کے خلاف سماجی رابطہ کاری کی ٹوئیٹر پر بحث کا ایک خاص موضوع ”میرے لباس کو نہ چھوؤ (Do not touch my clothes)“ متعارف ہوا اور اِس ’ہیش ٹیگ‘ کی ذیل میں نہ صرف اپنی شناخت چھپا کر ہزاروں افغان خواتین نے احتجاج کیا بلکہ بیرون ملک رہنے والی خواتین نے زیادہ بڑھ چڑھ کر بحث میں حصہ لیا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے افغانستان کا واحد مسئلہ وہاں خواتین کا لباس ہے اور دیگر کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے مختلف پہلوؤں پر افغان اور غیرافغان اجتماعی بحث میں حصہ لے سکیں۔ تین ماہ سے زائد جاری مذکورہ سوشل میڈیا مہم پر ہونے والے انواع و اقسام کے تبصروں کو اگر کتابی شکل دی جائے تو دور حاضر میں ایک نئی قسم کا ادب تخلیق و قرار پائے گا۔افغان عوام عزم‘ ہمت اور حوصلے کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ یہ اپنے ملک اور اِس کے وسائل پر طاقت کے ذریعے تسلط حاصل کرنے والوں سے زیادہ اپنی شخصی آزادی یا اپنی زبان و ثقافت پر ہونے والے حملوں کے خلاف نسبتاً زیادہ شدت سے احتجاج کرتے ہیں۔ افغانوں کی اِس نفسیات کو سمجھتے ہوئے ماضی کے جتنے بھی حکمران گزرے اُنہوں نے کبھی بھی ایسے اقدامات نہیں کئے‘ جو افغانوں کی خواہشات کے برعکس ہوں۔ ذہن نشین رہے کہ طالبان حکومت بلاشرکت غیرے پورے افغانستان پر قائم ہے جبکہ اِس سے قبل اگر گزشتہ بیس برس کے حالات و تجربات کو دیکھا جائے تو افغانستان میں حکومت صرف اور صرف دارالحکومت کابل تک محدود دکھائی دیتی تھی اور کابل بھی زیادہ محفوظ نہیں ہوتا تھا لیکن آج کے افغانستان کافی مختلف ہے جہاں امن و امان کسی حد تک بحال ہو چکا ہے۔دیکھا جائے تواس وقت افغانستان میں بڑا مسئلہ یونیورسٹی طالبات کے ڈریس کوڈ کا نہیں بلکہ وہاں پر ملک میں موجود غذائی قلت اور قحط جیسی صورتحال ہے جس کا تدارک کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے اور خصوصاً ان ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے جو امریکہ کی قیادت میں یہاں پر امن کے قیام کے بہانے آئے اور نہ صرف امن و امان کی صورتحال کی خرابی کا باعث بنے بلکہ یہاں پر معاشرتی برائیوں میں اضافے کو بھی نہ روک سکے۔ رشوت ستانی اور اقرباء پروری سابقہ افغان حکومتوں میں عروج پر رہی جبکہ دوسری طرف عوامی بہبود اور ملک کی خوشحالی اور معاشی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کے امیرترین ممالک کی موجودگی میں افغان عوام غریب ترین رہے اور ایسے معاشی منصوبے پروان نہیں چڑھائے گئے جس سے پائیدار بنیادوں پر خوشحالی ملک میں آتی۔کارخانوں اور انڈسٹری کو ترقی نہیں دی گئی۔ نہ ہی زراعت کو ترقی دینے کے کوئی میگا منصوبے سامنے آئے۔ بلکہ افغانستان میں جنگی معیشت پروان چڑھائی گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہی علاقے ترقی کرتے گئے جہاں دفاعی تنصیبات موجود تھیں اور جہاں فوج نے ڈھیرے ڈالے تھے۔ فوجی مراکز کے قریب بازار آباد کئے گئے جن کا زیادہ فائدہ خود امریکی کنٹریکٹرز نے اٹھایا تاہم امریکہ افواج کے جانے کے بعد یہ تمام کاروبار بند ہوگئے اور جتنے ٹھیکیدار تھے وہ بھی امریکی ہی نکلے جو پیسہ واپس اپنے ساتھ امریکہ لے گئے۔ا ب ان عالمی طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی انسانی المیے کو جنم لینے سے روکیں اور محض طالبان حکومت پرتنقید نہ کریں بلکہ اپنی غلطیوں کی بھی تلافی کریں۔