پشاور کہانی: لمحے اُداس اُداس‘ فضائیں گھٹی گھٹی

زندگی اِس قدر مشینی ہو چکی ہے کہ اب اِس کا ذائقہ اور لذت جیسی خوبیاں بھی نہیں رہیں۔ اہل پشاور کے ہاں موسم سرما کی کشش میں ’چھوانی یا اچھوانی (Chouwani)‘ ایک ایسا چائے نما مشروب ہے جس کی تیاری میں سوجھی‘ دیسی گھی‘ گڑ اور دودھ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اِن اجزائے کا تناسب سوجھی و دیسی گھی کی یکساں مقدار‘ دودھ کی دگنی مقدار جبکہ گڑ یا چینی کا حسب ذائقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ چار افراد کے لئے مذکورہ ’چھوانی‘ تیار کرنے کے لئے دو دو بڑی چمچ سوجھی اور دیسی گھی جبکہ ایک لیٹر دودھ اور قریب ایک پاؤ گڑ درکار ہوتا ہے۔ اہل پشاور اِسے انتہائی میٹھا بناتے ہیں‘ یعنی گڑ کا تناسب زیادہ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اِس کا مشروب کا رنگ سنہرا ہوتا ہے اور جن گھروں میں ’چھوانی‘ اور ’سندلی‘ جیسی موسمی روایات زندہ ہیں وہاں گڑ کو الگ برتن میں پانی ڈال کر محلول کر لیا جاتا ہے تاکہ اِس کے اوپر آنے والی جھاگ‘ گنے کا گودا (گند) وغیرہ صاف ہو جائے اور اِس گڑ کے محلول (جسے کاکیوں Cak'oun) کہا جاتا ہے اُسے آخری مرحلے (جوش آنے پر) سوجھی و دیسی گھی اور دودھ کے محلول میں شامل کر لیا جاتا ہے اور پہلا جوش آنے پر اِس مشروب کو اُتار لیا جاتا ہے تاکہ سوجھی کی وجہ محلول (چھوانی) زیادہ گاڑھا نہ ہو۔ وقت کے ساتھ سفر کرتے ہوئے آبلہ پائی میں وہ سبھی لذتیں ایک ایک کر کے تمام ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے رشتوں اور تعلق بھی مٹھاس بھرے ہوا کرتے تھے۔ ”ہے محبت‘ حیات کی لذت …… ورنہ کچھ لذت ِحیات نہیں (جون ایلیا)۔“موسم سرما کی کشش میں گرم کپڑے‘ خشک میوہ جات اور کھانے پینے کی اشیا کا ذکر ایک طویل داستان ہے‘ جو اہل پشاور کے شوق و ذوق اور یہاں صدیوں سے آباد ’ہندکوان تہذیب‘ کے رنگ بصورت قوس قزح بکھرے ملتے ہیں لیکن نئے عیسوی سال (دوہزاربائیس) کے آغاز پر (سات جنوری) کے روز سیاحتی مقام‘ ملکہ کوہسار مری میں جو سانحہ پیش آیا‘ اُس سے اہل پشاور بھی بالعموم اُداس و غمزدہ ہیں اور اِس مرتبہ موسم سرما سوگواری کی نذر ہو گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لئے ملک بھر سے سیاحوں نے مری کا رخ کیا جہاں گنجائش سے زیادہ سیاحوں اور گاڑیوں کے داخلے کی وجہ سے قیام و طعام کی سہولیات کم پڑ گئیں۔ سیاحوں کے پاس سوائے اِس بات کے کوئی دوسرا طریق (آپشن) نہیں تھا کہ وہ رات گاڑیوں میں بیٹھ کر گزارتے لیکن سردی کی شدت کے باعث گاڑیوں میں لگے ہیٹرز کا استعمال کیا گیا جس سے خارج ہونے والی ایک مضر گیس اور آکسیجن کی کمی کے باعث دم گھٹنے سے بیس اموات ہوئیں اور اِن بائیس ہلاک شدگان میں خواتین کے علاوہ 10 بچے بھی شامل ہیں! تصور کیا جا سکتا ہے کہ اُن گھروں میں صف ماتم بچھی ہوگی‘ جن کے عزیز سیروتفریح کی غرض سے گئے تھے لیکن اُن کے مردہ جسم واپس آئے ہیں!سانحہئ مری میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں جبکہ خیبرپختونخوا سے برفباری دیکھنے کے لئے مری جانے والوں کو علم نہیں کہ اُن کے گردوپیش میں کئی دیگر ایسے مقامات بھی ہیں جہاں مری کے مقابلے زیادہ برفباری ہوتی ہے اور جہاں قیام و طعام یا آمدورفت کے وسائل بھی مری سے زیادہ بہتر (ترقی یافتہ) شکل میں موجود ہیں۔ خیبرپختونخوا کا سیاحتی نقشہ قبائلی علاقوں کے انضمام کے ساتھ وسیع ہو چکا ہے لیکن نئے ضم ہونے والے اضلاع کے تفریحی مقامات کو خاطرخواہ ترقی اور تشہیر نہیں دی گئی۔ اُمید ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت بالائی علاقے (ہزارہ ڈویژن) کی طرح مالاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع کے سیاحتی مقامات کے بارے میں ایک نقشہ ترتیب دے گی اور سیاحوں کو متوجہ کرنے کیلئے وہاں سہولیات کو بھی ترقی دی جائے گی۔ دوسری اہم بات محکمہئ موسمیات اور موسمیاتی علوم کو بطور سائنس تسلیم کرنا تو ہے لیکن اِن علوم کی روشنی میں دی جانے والی پیشنگوئیوں کو خاطرخواہ توجہ نہ دینا ہے۔ جب محکمہئ موسمیات کی جانب سے شدید برفباری سے متعلق پیشگی مطلع کر دیا گیا تھا تو اِس پیشگوئی کو خاطرخواہ اہمیت کیوں نہیں دی گئی؟مری میں سیاحوں کی بڑی آمد پہلی مرتبہ نہیں ہوئی لیکن گزشتہ دس برس کے دوران برفباری کا ریکارڈ ٹوٹا ہے جو اِس حقیقت کا بیان ہے کہ موسم تبدیل ہو رہے ہیں اور کرہئ ارض پر بسنے والا صرف انسان ہی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے لئے ذمہ دار ہے اور اپنی ماحول دشمن حرکتوں کا مزا چکھ رہا ہے!بنیادی بات یہ ہے کہ سانحہ مری کے لئے موسم یا سیاح ذمہ دار نہیں بلکہ اُنہیں کنٹرول کرنے‘ ہنگامی حالات سے نمٹنے اور اِن سے متعلق منصوبہ بندی کرنے والوں نے اپنی ذمہ داریاں کماحقہ فرض شناسی سے ادا نہیں کئے۔موسم گرما یا موسم سرما اور صرف مری ہی نہیں بلکہ ہزارہ ڈویژن کے بالائی تفریحی مقامات (ہل اسٹیشنز) کا بھی یہی حال رہتا ہے کہ وہاں گنجائش زیادہ سیاح بنا تیاری پہنچ جاتے ہیں۔ تصور کریں جب کسی تفریحی مقام پر صرف ایک رات کے لئے گاڑی کھڑی کرنے کا کرایہ 4 ہزار روپے طلب کیا جائے یا برف میں پھنسی گاڑی کو نکالنے کی قیمت 5 ہزار اور ہوٹل میں ایک رات کمرے کا کرایہ تیس سے چالیس ہزار روپے طلب کیا جائے تو ایسی صورت میں سیاحوں کے لئے گاڑی میں رات بسر کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت (آپشن) نہیں رہ جاتا! مری میں گراں فروشی بھی اموات کا باعث بنی ہے کیونکہ سیاح مرتے کیا نہ کرتے۔ وہ زندگی اور موت کے درمیان پھنس چکے تھے۔ اُنہوں نے فیصلہ کرنا تھا اور انہوں نے ایک غلط فیصلہ کیا‘ جس پر پوری قوم اور رواں برس کا موسم سرما اداس ہے۔