بحران کی دستک

ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’پروانشیل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) نے خیبرپختونخوا میں ڈاکٹروں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے توجہ دلائی ہے کہ اگر ڈاکٹروں کی ملازمتیں مستقل (ریگولرائزڈ) کرنے اور اُن کے تنخواہوں سمیت بقایا جات کی ادائیگی میں مزید تاخیر کی گئی تو بطور اِحتجاج مختلف اضلاع میں سرکاری ہسپتالوں کے کم سے کم 100 سینئر ڈاکٹرز مستعفی ہو جائیں گے۔ معالجین کی نمائندہ تنظیم یہ بھی چاہتی ہے کہ صحت سے متعلق صوبائی حکمت عملی وضع کرنے کے مراحل میں اُن سے بھی مشاورت کی جائے کیونکہ ڈاکٹرز مختلف قسم کے مسائل و مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور اِس بارے میں محکمہئ صحت کو بار ہا تحریراً آگاہ کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ غوروخوض نہیں کیا جا رہا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے پیش کردہ ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ کے سبھی مطالبات جائز نہیں لیکن ملازمتوں کو مستقل کرنے اور ماہانہ تنخواہوں سمیت بقایا جات کی ادائیگی بنا تاخیر ہونی چاہئے اور جمہوری طرز حکمرانی کا حسن یہ ہوتا ہے کہ اِس میں افہام و تفہیم اور بات چیت کے ذریعے اختلافات (مسائل) حل کئے جاتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ڈاکٹروں نے صحت سے متعلق صوبائی حکمت عملی بالخصوص سرکاری خرچ پر علاج معالجے (صحت بیمہ) میں مالی و انتظامی بے قاعدگیوں کی جانب بھی اشارہ کیا ہے اور اِسی سے متعلق سوال اُٹھاتے ہوئے 4 جنوری 2022ء کے روز عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) کے چیف جسٹس گلزار نے خیبرپختونخوا میں صحت کے شعبے سے متعلق حکومتی کارکردگی پر سوال اُٹھایا تھا۔ چیف جسٹس خیبرپختونخوا میں سرطان (کینسر) کیسز میں اضافے کے حوالے سے ایک مقدمے کی سماعت کر رہے تھے جب اُنہوں نے استفسار کیا کہ ”خیبرپختونخوا صحت کے شعبے پر سالانہ اربوں روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے تو آخر یہ اربوں روپے کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟“ ذہن نشین رہے کہ ’سوشل ہیلتھ پروٹیکشن انشی ایٹو‘ کے تحت خیبرپختونخوا کے 74 لاکھ خاندان اپنے صوبے کے علاؤہ پنجاب‘ گلگت بلتستان‘ آزاد جموں و کشمیراور سندھ سے بھی علاج کروا سکتے ہیں اِسی طرح پنجاب کے رجسٹرڈ باشندے خیبرپختونخوا کی منتخب 157 سرکاری و نجی علاج گاہوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ اِس صورت میں جبکہ صحت انصاف کارڈ کے حامل افراد مختلف صوبوں سے علاج معالجہ کروا سکتے ہیں اور پنجاب میں رجسٹرڈ افراد خیبرپختونخوا سے علاج کروانے کے اہل ہو چکے ہیں تو ضروری ہے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات کو وسعت دی جائے لیکن اگر وہاں ڈاکٹر غیرمطمئن اور اپنے ملازمتی حالات کے بارے تحفظات رکھتے ہوں گے تو اِس سے مریضوں کا رخ نجی علاج گاہوں کی جانب ہوگا اور گزشتہ سال بھی سرکاری ہسپتالوں کے مقابلے نجی ہسپتالوں نے صحت انصاف کارڈ سے زیادہ مالی فائدہ اُٹھایا۔ صوبائی حکومت صحت کے محاذ پر بیک وقت اصلاحات اور عوام کے فلاح و بہبود کے بارے حکمت عملیوں کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے لیکن اِس کے لئے متعلقہ فریقین کے اطمینان کو  یقینی بنانا ضروری ہے۔خیبرپختونخوا کے معالجین اگر مطمئن نہیں تو یہ صورتحال صرف تشویشناک نہیں بلکہ انتہائی سنگین ہے کیونکہ ڈاکٹروں کا اطمینان بہرحال ضروری ہے بصورت دیگر اُن سے کس طرح اِس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں خاطرخواہ توجہ (انہماک) سے کام کر سکیں گے؟ سرکاری علاج گاہوں پر مریضوں کا دباؤ اور کورونا وبا کی نئی لہر (اومیکرون) کے خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹروں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔