وسطی ایشیاء کی اسلامی ریاست ترکمانستان نے جہنم کا دروازہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس خبر سے عمومی طور پر یہ تاثر لیاجاتا ہے کہ جہنم کا راستہ سابق سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی ریاست ترکمانستان سے ہوکر گذرتا ہوگا اس لئے اس کا راستہ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو گا عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آنے والے تخیلات شاعر لوگوں کے ذہنوں میں آتے ہیں مگر سیاست دان اس لطیف حس سے عام طور پر بے بہرہ ہوتے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ ”جاتے ہوئے کہتے ہو‘ قیامت کو ملیں گے۔ کیاخوب، قیامت کا ہے گویاکوئی دن اور“شاعر نے یہاں محبوب سے جدائی کو اپنے لئے قیامت برپا ہونے سے تعبیر کیا ہے۔اپنے قارئین کو تجسس کے عذاب سے چھٹکارہ دلانے کیلئے جہنم کے راستے کی حقیقی کہانی بتاتے چلیں۔1971میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں ترکمانستان کے صحرائی علاقے قراگم میں ماہرین نے ایک کنواں کھودا تھا۔ کنوئیں سے دھکتے آگے کے شعلے نکلنے لگے۔ اسے بجھانا اس وقت ممکن نہیں تھا۔ اس وجہ سے ماہرین اسے کھلا چھوڑ کر نو دو گیارہ ہوگئے۔یہ چھوٹا سا گڑھابڑھتے بڑھتے 70میٹر چوڑا اور20 میٹرگہرا ہوگیا اور گذشتہ پچاس سالوں سے اس گڑھے سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں اور یہ شعلے کافی فاصلے سے نہ صرف دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کی تپش بھی دور سے ہی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس گڑھے کو لوگوں نے جہنم کے راستے کا نام دیا۔ گذشتہ دو عشروں سے صحرائے قراگم میں موجود یہ دھکتی آگ کا گڑھا سیاحوں کے لئے ایک پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ حال ہی میں ترکمانستان کے صدر قربان علی محمدوف نے حکم جاری کیاہے کہ 50برس سے جہنم کے دروازے نامی گڑھے میں دہکتی آگ کو بجھانے کا کوئی راستہ نکالاجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک میں موجود گیس جیسے قدرتی ذخائر کو خود نقصان پہنچا رہے ہیں قدرتی گیس کے اس وسیع ذخیرے سے ہم منافع کما سکتے ہیں۔ اس منافع سے ہم لوگوں کی زندگیاں بہتر بنا سکتے ہیں۔ صدر کا کہنا ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں بننے والے اس گڑھے کی وجہ سے ماحول اور اردگرد رہنے والے لوگوں کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ اسلئے ماہرین اس بارے میں کوئی راستہ نکالیں اور آگ کو بجھانے کی کوشش کریں۔وسطی ایشیاء کا یہ خطہ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ہے مگر گرم پانی تک پہنچنے کا راستہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ قیمتی وسائل ضائع ہورہے ہیں‘ ہمارے ہاں گیس لوڈشیڈنگ کے ستائے لوگ قدرتی گیس کے اسراف پر کڑھ رہے ہونگے‘ یہ بات سچ ہے کہ ایک اندھا شخص بینائی کی نعمت کی قدر بہترجان سکتا ہے۔اندھا کیاجانے بسنت کی بہار والی کہاوت محض طنز ہے۔ہم نے دیکھتی آنکھوں والوں کو بھی بصارت کی نعمت سے محروم دیکھا ہے۔علامہ اقبال نے شاید انہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”دل بینا بھی کرخدا سے طلب۔ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں“ جو لوگ بصارت کی نعمت سے استفادہ کر رہے ہیں وہ اس کی قدر و قیمت سے نسبتاً کم آگاہ ہیں اسی موضوع سے میل کھانے والی ایک اور مشہور کہاوت ہے کہ ”گھر کی مرغی دال برابر ہے“یعنی جو چیز دستیاب ہے اس کی قدر نہیں کی جاتی۔جو چیز پاس نہیں، اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ہمارے ہاں بھی بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدروقیمت کا ہمیں صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس چار موسم ہیں، کھلاسمندر ہے، فلک بوس، برف پوش چوٹیاں ہیں، لق و دق صحرا ہیں،ذرخیز زمینیں ہیں۔انواع و اقسام کی جنگلی حیات،گھنے اور سرسبز و شاداب جنگل ہیں۔بیکار چیز سمجھ کر ہم بے دردی سے ان کا صفایاکررہے ہیں۔خدا کرے کہ قربان علی محمدوف کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت اور انہیں قومی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی توفیق نصیب ہو۔آمین