قومی اداروں میں اصلاحات

قومی پرچم بردار فضائی کمپنی پی آئی اے میں اصلاحاتی عمل کے مثبت نتائج ظاہر ہونے لگے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران اصلاحاتی عمل سے فی طیارہ ملازمین کی تعداد  550 سے کم کرکے 260 کردی گئی۔ اس واضح کمی کے بعد پی آئی اے کی افرادی قوت بین الاقوامی تناسب کے برابر آگئی ہے۔ دنیا کی بہترین ائر لائنز افرادی قوت کی شرح کوفی طیارہ 200 سے 250 کے درمیان رکھتی ہیں۔رواں سال فضائی بیڑے میں مزید طیاروں کی شمولیت سے یہ شرح 220 تک آنے کی توقع ہے۔ ملازمین کی تعداد میں کمی رضاکارانہ علیحدگی سکیم، جعلی ڈگری اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والے ملازمین کی برطرفی سے ممکن ہوئی۔ پی آئی اے کے1900 ملازمین نے رضاکارانہ علیحدگی سکیم سے استفادہ کیا‘837 ملازمین کو جعلی ڈگریوں پر بھرتی کی بنیاد پر برطرف کیا گیا جبکہ 1100 ملازمین کو نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں اورکرپشن کی وجہ سے فارغ کیا گیا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسرکے مطابق ملازمین کی تعداد کم کرنے سے سالانہ8 ارب روپے کی بچت بھی ہوگی اور قومی ائرلائنز کے خسارے میں واضح کمی کی توقع ہے۔ پی آئی اے کا شمار1980کے عشرے تک دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ قطر ائرویزسمیت دنیا کی مختلف ائرلائنوں نے پی آئی اے سے تربیت اور تجربہ حاصل کیا تھا۔پاکستان ریلویز، کسٹمز، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، واپڈا، سوئی گیس،پاکستان سٹیل مل کی طرح پی آئی اے  میں بھی ہر آنے والی حکومت نے تھوک کے حساب سے بھرتیاں کرائیں جس کی وجہ سے ان اداروں کے سالانہ منافع سے تین گنا زیادہ رقم ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہونے لگی۔پی آئی اے ملازمین کو اہل خانہ سمیت پورے ملک اور سال میں ایک دفعہ بیرون ملک مفت سفر کی سہولت دی گئی ہے۔ ان شاہانہ فیصلوں کی وجہ سے اداروں پر ہی نہیں بلکہ قومی خزانے اور عوام پر بھی اضافی بوجھ پڑتا رہا۔ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑاسٹیل مل ملازمین کے بوجھ تلے دب کر ختم ہوگیا۔ پی آئی اے،ریلوے اور دیگر اداروں کو ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے حکومت ہر سال اربوں روپے کے بیل آؤٹ پیکج دیتی ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ خسارے میں چلنے والے ان اداروں کو خریدنے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں۔ پی آئی اے میں اصلاحاتی عمل کے آئندہ ایک دو سالوں میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور یہ قومی ادارہ پھر سے منافع کمانے کے قابل ہوگا۔ دیگر اداروں میں بھی اصلاحاتی عمل پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔کیونکہ چند ہزار افراد کو پالنے کے لئے قومی اداروں کو قربان نہیں کیاجاسکتا۔اداروں میں اصلاحات کا عمل انتہائی مشکل اور صبر آزما ہے۔آج تک کسی حکومت نے اداروں میں اصلاحات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اسی مصلحت کوشی کی وجہ سے ہمارے ادارے قوم پر بوجھ بن چکے ہیں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات وہ شعبہ ہے کہ جس پر ا گر خاطر خواہ توجہ مرکوز کی جائے تو اس کے دوررس اثرات سامنے آتے ہیں کیونکہ یہ کسی ملک کے ادارے ہوتے ہیں جو معاشی ترقی کی بنیاد بنتے ہیں اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں تاہم اس کے ضروری ہے کہ ہر ادارے کو ایسی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور چلایا جائے کہ وہ ملکی معیشت پر بوجھ کی بجائے سہارا بنیں۔