اومیکرون: دانشمندی کے تقاضے

کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا بھر میں بہت زیادہ افراد کو بیمار تو کررہی ہے مگر اس سے بیماری کی سنگین پیچیدگیوں‘ ہسپتال میں داخلے اور موت کا خطرہ دیگر اقسام کے مقابلے میں کم دکھائی دے رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وبا اِس نئی قسم جو زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت والے جرثومے کی وجہ سے ہے کے باعث ماضی کی طرح سماجی و تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ قبل ازیں کورونا وبا کی شدت کم کرنے کیلئے ویکسی نیشن کی ضرورت پر زور دیا جاتا تھا لیکن ’اومیکرون‘ کے خطرے میں ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد کی زندگیاں خطرے میں نہیں ہوں گی اور اگرچہ اومیکرون سے بیمار ہونا تو ممکن ہے لیکن اِس سے شدید بیمار ہونے یا مرض کی شدت کے باعث موت کا خطرہ کم ہے۔ یہ حیرت انگیز دریافت جنوبی افریقہ میں کی گئی طبی تحقیق سے سامنے آیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کورونا وبا کی پہلی قسم چین جبکہ موجودہ نئی قسم کے بارے میں اِسی بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اِس کا سفر جنوبی افریقہ سے شروع ہوا۔ طبی ماہرین کی ایک تعداد کورونا وبا سے کسی حد تک بچانے اور اِس کی شدت روکنے والی ویکسی نیشن کے منفی پہلوؤں کو مثبت پہلوؤں کے مقابلے زیادہ وزنی اور قابل توجہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ویکسین عام ہونے کی وجہ سے کورونا وبا کا وائرس اپنی حالت بدلتا رہے گا اور دنیا کو ایک ویکسی نیشن کے بعد دوسری قسم کی ویکسی نیشن دریافت کرنی پڑے گی جبکہ اِس قسم کی بیماریوں سے جسمانی قوت مدافعت مضبوط رکھنے کیلئے صحت مند طرز زندگی اپنانے اور غیرصحت مند عادات بشمول خوراک پر نظرثانی کرنی ہے۔جنوبی افریقہ کے ”نیشنل انسٹیوٹ آف کمیونیکیبل ڈیزیز (این آئی سی ڈی)“ کی جانب سے مذکورہ تحقیق میں کورونا کی اولین تین لہروں میں بیمار ہونے والے گیارہ ہزار چھ سو مریضوں کا موازنہ اومیکرون سے متاثر ہونے والے پانچ ہزار ایک سو مریضوں سے کیا گیا اور حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ ذہن نشین رہے کہ عالمی سطح پر اومیکرون کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر سنگین شدت کے کیسز کی شرح کم ہے جبکہ ہسپتال میں داخلے اور اموات کی تعداد بھی سابقہ اقسام کے مقابلے میں کم ہے۔ طبی ماہرین کی جانب سے یہ تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بیماری کی کم شدت کی وجہ ویکسینیشن یا سابقہ بیماری تو نہیں یا کورونا کی نئی قسم بذات خود دیگر کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا نہیں۔ مذکورہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون سے بیمار ہونے پر سنگین بیماری کا خطرہ ایک چوتھائی حد تک کم ہونے کی وجہ ممکنہ طور پر وائرس خود ہے۔ تحقیق کے مطابق اومیکرون کی لہر میں سنگین نتائج کی شرح میں کمی یقینا ویکسی نیشن یا سابقہ بیماری نے کردار ادا کیا مگر وائرس کی جان لیوا صلاحیت میں بھی ڈیلٹا کے مقابلے میں پچیس فیصد کمی آئی۔ مذکورہ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے تو ان کو حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا مگر یہ سابقہ تحقیقی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ تئیس دسمبر کو برطانیہ کی جانب سے جاری اعدادوشمار میں بتایا گیا تھا کہ اومیکرون سے مریضوں کے زیادہ بیمار ہونے کا خطرہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ اِن اعدادوشمار کے مطابق اومیکرون قسم کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ کم ہے جبکہ ہسپتال میں داخلے کی ضرورت بھی کورونا کے پہلی قسم کے جرثومے کے مقابلے چالیس فیصد تک کم ہے مگر طبی ماہرین اِس بارے میں خبردار بھی کر رہے ہیں کہ اگرچہ اومیکرون بیماری کی شدت معمولی ہوسکتی ہے مگر اس کے زیادہ تیزی سے پھیلنے کے باعث طبی نظام پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ اعدادوشمار یکم سے چودہ دسمبر دوہزاراکیس کے دوران برطانیہ میں پی سی آر ٹیسٹوں سے مصدقہ کووڈ کیسز کے ریکارڈ کو دیکھا گیا جس میں چھپن ہزار کیسز اومیکرون جبکہ دو لاکھ انہتر ہزار ڈیلٹا کے تھے۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ اومیکرون سے متاثر افراد میں ہسپتال جانے کا خطرہ ڈیلٹا کے مقابلے میں بیس سے پچیس فیصد تک کم ہوتا ہے جبکہ کم از کم ایک رات کے لئے ہسپتال میں قیام کا امکان چالیس سے پینتالیس فیصد تک کم رہتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی دریافت کیا گیا ہے کہ ایسے افراد جو پہلے کورونا وبا سے متاثر نہیں ہوئے یا جنہوں نے ویکسی نیشن مکمل نہیں کروائی اُن میں اومیکرون سے بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ڈیلٹا قسم کے کورونا کے مقابلے میں گیارہ فیصد کم ہے۔ پاکستان میں کورونا وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال پر پل پل خبر رکھنے والے وفاقی ادارے کی جانب سے نہ صرف ویکسی نیشن مکمل کرنے سے متعلق ہدایات جاری کی گئی ہیں بلکہ جن افراد نے چھ ماہ قبل ویکسی نیشن کا عمل مکمل کروا لیا تھا‘ اُنہیں بوسٹر ڈوز لگوانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے اور بوسٹر ڈوز لگانے کیلئے عمر کی حد اٹھارہ سال تک کم بھی کر دی گئی ہے۔ کورونا وبا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) پر عمل درآمد ہی میں بچت و صحت ہے کہ کسی بھی قسم کے نئے یا پرانے وبائی مرض کی شدت اور اِس مرض کا پھیلاؤ روکنے کیلئے چہرہ ڈھانپ کر رکھنے (ماسک کے استعمال) اور پرہجوم مقامات پر جانے سے گریز ہی دانشمندی ہے۔