نشہ کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ

اس بچی کی عمر تقریباً15 سال ہوگی وہ والدہ کے ہمراہ شہر کے نواحی علاقہ کے قبرستان میں رات بسر کرتی ہے اسکے بقول ان کا والد ان پر مظالم کرتا اور ان کو اس حد تک مجبور کردیا کہ وہ گھر چھوڑ کر دسمبر کی سرد راتیں کھلے آسمان تلے قبرستان میں گزاریں لیکن گھر واپس نہ جائیں ماں بیٹی کی مزید بدقسمتی یہ تھی کہ دونوں منشیات کی عادی ہوگئی تھیں بقول بچی کے وہ چرس کے بعد اب آئس استعمال کرتی ہے اور اس کی والدہ بھی نشہ کی عادی ہے اس ساری صورتحال کا ذمہ دار اس کے والد کو ٹھہرایا اس پر اور بھی سنگین الزامات عائد کئے۔خدا کے کچھ نیک بندوں نے خاتون اور بچی کی حالت اور اس معاشرے میں ان کو درپیش خطرات کے سبب ان کا کیس اعلیٰ حکام تک پہنچایا جس کے بعد سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم ڈسٹرکٹ آفیسر یونس آفریدی کی سربراہی میں اس علاقہ میں پہنچی اور بچی اور اسکی والدہ کو بحالی سنٹر منتقل کیا جہاں تقریباً تین ہفتے بعد اب ان دونوں کی حالت بہتر محسوس  ہورہی ہے جو ایک خوش آئند امر ہے اور اس کا سہرا ان تمام نیک صفت لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے ان دونوں کی حالت زار کا مسئلہ اٹھایا اور جنہوں نے ان کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے بعد ان کی صحت کی بحالی اور سہولیات کی فراہمی کا فریضہ انجام دیا مگر یہ دو خواتین ہی نہیں جو اس وقت پشاور یا خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر اضلاع میں سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی ہیں۔ آئس ہیروئن چرس اور دیگر نشہ آور ادویات اور انجکشن کی عادی ہوچکی ہیں گزشتہ چند سالوں سے ان نشہ کرنے والی خواتین کی تعداد میں بہت اضافہ سامنے آیا ہے جو گلیوں اور سڑکوں پر راتیں گزار رہی ہیں یا جو گھروں‘ ہاسٹلوں اور دیگر مقامات میں آئس چرس اور ہیروئن کی عادی بننے کے بعد چوری اور دیگر نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں ان میں کم عمر نوجوان خواتین اور اب بچے بھی شامل ہو رہے ہیں جو بے حد تشویشناک امر ہے اور جس کے بارے میں ہمارے معاشرے اور حکومت اور اسکے  اداروں کو فوری عمل کرنے کی ضرورت ہے ایک عرصے سے حکومت اور اسکے ادارے دعوے کر رہے ہیں کہ منشیات تیار کرنے‘ فروخت کرنے اور سمگل کرنے والوں کے خلاف کاروائیاں کرکے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ہزاروں کلو گرام منشیات برآمد کرکے تلف کی گئی ہیں پولیس کے ساتھ ساتھ بے شمار ادارے اس لعنت کو ختم کرکے کیلئے قائم ہیں جن پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں مگر منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ بھی نظر آرہا ہے شہر کی سڑکوں پلوں کے نیچے‘ گلیوں میں اور ویران مقامات پرہر عمر کے مرد قابل رحم حالت میں نشہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ہر چند ہفتے بعد لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے مہم چلائی  جاتی ہے بظاہر ان کو بحالی مراکز مستقل کیا جاتا ہے مگر درحقیقت ان کو صرف مصروف مقامات سے ہٹا کرکہیں اور منتقل کر دیا جاتا ہے  کیونکہ سارے پشاور میں سرکاری سطح پر منشیات کی بحالی کا ایک ہی مرکز ہے جس میں 200-100 سے زائد افراد کی گنجائش بھی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعی مخلص اور ایمانداری سے مہم چلاکر نہ صرف ان نوجوانوں کی قیمتی زندگیاں بچانا ضروری ہے ان کیلئے بحالی مراکز اور علاج کی سہولیات ضروری ہیں بلکہ ان افراد کے خلاف بھی کاروائی ضروری ہے جو اس لعنت کو فراہم کرتے ہیں اس سلسلے میں سخت قوانین لانے اور سزائیں دینے کی بھی ضرورت ہے۔ والدین‘ اساتذہ‘ علمائے کرام‘ معاشرے کے بزرگوں اور ہم میں سے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ منشیات کی لعنت سے اردگرد لوگوں کو محفوظ رکھیں انکی تربیت کریں اور کسی بھی مشکوک حرکت پر ان افراد کو بحالی مراکز پہنچاکر اس لعنت سے انکی جان چھڑائیں یہ ہمارا قومی فریضہ اور دینی ذمہ داری ہے۔