اہلیت کا خون 

طب (ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس) کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ”داخلہ اہلیت“ و دیگر معیارات پر سندھ کی صوبائی حکومت کے شروع دن سے تحفظات ہیں جن میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں طب کی تعلیم وفاق کے زیرانتظام و نگران ادارے ”پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC)“ کے ذمے ہے جس نے ایک مرتبہ پھر صوبائی حکومت کو مطلع کیا ہے کہ وفاقی ادارہ سندھ کے میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخل ایسے کسی بھی طالب علم کی رجسٹریشن (داخلہ تصدیق) نہیں کرے گا جو ’پی ایم سی‘ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے داخل کئے گئے ہوں۔ اِس سلسلے میں ’تیرہ جنوری‘ کے روز ’جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی‘  کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلوں سے لاتعلق رہیں جبکہ اِس کے ساتھ ہی نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کو خبردار بھی کیا گیا ہے کہ وہ ’پی ایم سی‘ کے قواعد کی خلاف ورزیوں سے اجتناب کریں۔ صورتحال یہ ہے کہ ’جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی‘ کو سندھ کے صوبائی محکمہئ صحت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ایسے تمام طلبہ کو نئے تعلیمی سال میں داخلہ دیں جنہوں نے 2021ء کے ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ میں 50 فیصد یا اِس سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں جبکہ ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کی جانب سے مذکورہ ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی امتحان میں کامیابی کے لئے کم سے کم 65 فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہیں۔ سندھ چاہتا ہے کہ دیگر صوبوں کے برعکس اِس کے لئے ’ایم ڈی کیٹ‘ پاسنگ نمبروں کو کم کر کے ’50 فیصد‘ کر دیا جائے لیکن ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ اِس رائے (تجویز) سے اتفاق نہیں کرتا۔ سندھ حکومت اور وفاقی ادارے (پی ایم سی) کے درمیان اختلاف سے طلبہ اور والدین پریشان ہیں کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے اور احکامات جاری کرنے کی صورت جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن مل بیٹھ کر اِس مسئلے کا حل نہیں نکالتے‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ سنگین شکل اختیار کر رہا ہے اور دیگر صوبوں میں بھی ’ایم ڈی کیٹ‘ پاسنگ نمبروں کو ’پچاس فیصد‘ تک کم کرنے کا مطالبہ اُٹھ سکتا ہے۔ ’پی ایم سی‘ کا مؤقف ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020ء اور میڈیکل کمیشن قواعد (ریگولیشنز) کو من و عن تسلیم کیا جائے کیونکہ اِن کے درست ہونے کی تصدیق عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) اور عدالت عالیہ (سندھ ہائی کورٹ) کر چکے ہیں۔ مذکورہ قانون (پی ایم سی ایکٹ دوہزاربیس) میں تحریر ہے کہ ”نجی میڈیکل کالجیں وفاقی ادارے کے قواعدوضوابط کو تسلیم کریں گی“ اور جہاں تک سندھ کی بات ہے تو مذکورہ قانون میں سندھ کے محکمہئ صحت اور صوبائی نگران ادارے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی اپنی مرضی سے احکامات جاری نہیں کر سکتی نہ ہی قواعد میں ازخود ترمیم کر سکتی ہے۔پاکستان میڈیکل کمیشن کا مؤقف مضبوط اور آئین کے مطابق وضع کئے گئے اُن قواعد کے دائرے میں ہے‘ جو ملک میں طب کی تعلیم کے حوالے بنایا گیا ہے۔  یقینا آئین بالادست ہونا چاہئے اور اِس آئین کی روشنی میں وضع کردہ قواعد پر صوبوں کو عمل درآمد بھی کرنا چاہئے لیکن اگر کسی صوبائی حکومت کا داخلے کی اہلیت سے متعلق کوئی نکتہئ اعتراض ہے تو اِسے بیانات اور عدالت کی بجائے بات چیت کے ذریعے حل کیوں نہیں کیا جاتا۔ سیاسی جماعتیں اِس بات پر فخر کرتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت رواں دواں ہے اور اب ہر حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کر رہی ہے تو اِس جمہوریت کی روح یہ ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان اوّل تو اختلافات و تنازعات پیدا نہیں ہونے چاہیئں اور دوسرا یہ کہ اگر کسی وجہ سے تنازعات پیدا ہو بھی جائیں تو اِنہیں حل کرنے کا درست طریقہ افہام و تفہیم ہی ہے۔ دوسرے کسی بھی ذریعے سے اختلافات ختم کرنے کی کوشش میں اِن کے بڑھنے کا امکان رہتا ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی ادارے ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کے درمیان ’داخلہ اہلیت پھڈا‘ تیس اگست دوہزاراکیس سے تیس ستمبر دوہزار اکیس کے درمیان ہوئے ’آن لائن (ایم ڈی کیٹ) امتحان کے انعقاد سے قبل کا جاری ہے اور اِس تنازعے میں وقتی طور پر دیگر صوبوں کی آوازیں بھی شامل ہوئیں جو ’ایم ڈی کیٹ‘ کے نصاب سے متعلق تھیں جو حسب قواعد ’نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹنل اکیڈمک بورڈ‘ تشکیل دیتا ہے۔ مذکورہ امتحان میں کامیابی کے لئے کم سے کم 65فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہیں جبکہ محدود نشستوں کے باعث سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں 90 فیصد یا اِس سے زائد اور نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں 80 سے 90 فیصد نمبرات حاصل کرنے والوں کو داخلہ ملتا ہے۔ اِس صورتحال میں جبکہ 80فیصد نمبر حاصل کرنے والے کو بمشکل داخلہ مل پاتا ہے سندھ کی جانب سے اہلیت (ایم ڈی کیٹ) امتحان کے نمبروں کو 50فیصد تک کم کرنے پر اصرار سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہی صورتحال خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں کی بھی ہے کہ جہاں 80 سے 90 فیصد کے درمیان نمبر حاصل کرنے والوں کو بھی داخلہ نہیں مل پاتا۔ درحقیقت ’ایم ڈی کیٹ‘ اور داخلہ حاصل کرنے کی حکمت ِعملی خاصی پیچیدہ ہے اور اِس میں سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں کو داخلہ فیسوں کی مد میں سالانہ لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے لیکن یہ آمدنی نشستوں کی تعداد میں اضافے پر نہیں بلکہ دیگر غیرترقیاتی اخراجات اورمراعات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل کمیشن اور سندھ کی صوبائی حکومت یا کسی بھی صوبائی حکومت کا ملک میں طب کی تعلیم سے متعلق قانون کے بارے میں رائے اپنی جگہ اہم اور قوانین و قواعد کی تشریحات آئین پاکستان کی رو سے کرنا بھی جائز و درست ہے لیکن ایک نکتہئ نظر عوامی بھی ہے یعنی وہ صارفین (طلبہ اور والدین) جو سندھ و دیگر صوبوں میں داخلے کے خواہشمند ہیں‘ اُن کی اہلیت بھی ثابت ہے کہ اُنہوں نے ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحان میں 65فیصد سے زائد نمبر حاصل کئے ہیں لیکن اُنہیں کسی بھی سرکاری یا نجی ادارے میں داخلہ نہیں مل رہا تو ایسے ’اہل طلبہ‘ کی محرومی اور نفسیاتی دباؤ (ڈپریشن) کے بارے کسی نے سوچنے کی زحمت گوارہ کی ہے؟