منی بجٹ: غیرضروری اخراجات

پاکستان میں مہنگائی کے محرکات کو اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ حکومت کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی درآمدات زیادہ جبکہ برآمدات کم ہیں جس کی وجہ سے بیرون ملک سے اشیا خریدنے کیلئے غیرملکی کرنسی چاہئے ہوتی ہے۔ اگر برآمدات زیادہ ہوں یا درآمدات کے مساوی ہوں تو زرمبادلہ کے قومی ذخائر پر اثر نہیں پڑتا اور وقت کے ساتھ روپے کی قیمت بھی مستحکم ہوتی رہتی ہے لیکن اگر زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوں تو قرض لینا پڑتا ہے جس کی سخت شرائط کی وجہ سے حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی عوام کو دی جانے والی مختلف رعایتیں (سبسڈیز) واپس لینا پڑتی ہیں اور اِس کی وجہ سے بجلی‘ گیس‘ پیٹرولیم مصنوعات‘ ادویات اور دیگر انتہائی بنیادی نوعیت کی ضروریات بھی مہنگی ہوتی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ قرض پر انحصار کرنے والی معیشت جب تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو گی یعنی حکومتی اخراجات چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کے مساوی ہوں گے اور حسب آمدنی طرز حکمرانی کم خرچ کیا جائے گا بھلے ہی حکومت عوام پر ٹیکسوں کی شرح میں جس قدر جی چاہے اضافہ کرے اور جس قدر بھی منی بجٹ لائے جائیں لیکن آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے ’مہنگائی کا مسئلہ‘ حل نہیں ہوگا۔ دوسری طرف عوام اگر سادگی اختیار کریں اور ایسی تمام اشیا کا استعمال بتدریج کم کرتے ہوئے غیرضروری اخراجات سے گریز کریں تب بھی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث قرض لینے کی نوبت نہیں آئے گی۔ غیرملکی درآمد اشیا میں خشک چائے کی پتی‘ دالیں‘ چینی‘ گندم‘ پیاز‘ آلو‘ ٹماٹر‘ لہسن‘ پیٹرولیم مصنوعات‘ دودھ‘ پُرآسائش گاڑیاں اور الیکٹرانکس کا سامان بھی شامل ہے جن کے متبادل کی پاکستان میں حسب طلب پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے لیکن حکومت اور عوام مہنگائی کم کرنے کے لئے اُن محرکات (عوامل) پر ایک دوسرے سے تعاون نہیں کر رہے جن کی مدد سے مہنگائی جیسے چیلنج سے باآسانی نمٹا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت قرضوں پر منحصر نمودونمائش کا مجموعہ ہے‘ جسے حسب حال سادہ (کم خرچ) بنائے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ”قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں …… رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن (مرزا غالبؔ)۔“عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا بنیادی مطالبہ (اہم شرط) پوری کردی گئی۔ اس منظوری سے متعدد اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹیز (سبسڈیز) کے استثنیٰ کو واپس لیا گیا ہے جس کے بعد ٹیلی کام سروسزفراہم کرنے والی کمپنیوں نے بیلنس ری چارج پر اضافی ٹیکس لینے کا اعلان کیا ہے۔ اِس بات کو اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس وقت ایک سو روپے کے ’ری چارج‘ پر 90 روپے 30 پیسے کا بیلنس ملتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہوگا بلکہ موبائل فون صارفین کو ہر ایک سو روپے کے ری چارج پر قریب چار (3.9) روپے ”اضافی ود ہولڈنگ ٹیکس“ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ اس طرح اب ہر سو روپے کے ری چارج پر نوے اعشاریہ نو کی بجائے چھیاسی اعشاریہ چھیانوے روپے کا بیلنس ملا کرے گا اُور اس ودہولڈنگ ٹیکس کا اطلاق تمام موبائل فون خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں (جاز‘ یوفون‘ ٹیلی نار اور زونگ) کے صارفین پر یکساں ہوگا یعنی کسی بھی موبائل فون کمپنی کے صارفین ’ود ہولڈنگ ٹیکس‘ سے مستثنیٰ نہیں ہوں گے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے بیلنس میں کٹوتی کے بارے میں صارفین کو آگاہ کرنے کے لئے مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) ارسال کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جولائی دوہزاراُنیس تک ایک سو روپے کے ری چارج پر قریب 80 روپے (79.90 روپے) کا بیلنس ملتا تھا مگر سپرئم کورٹ کے احکامات کے بعد ٹیلی کام کمپنیوں نے آپریشنل اور سروسیز فیس کی وصول روک دی تھی۔ جس کے بعد صارفین کو ہر سو روپے کے ری چارج پر 90روپے کا بیلنس ملنے لگا لیکن چودہ جنوری کو قومی اسمبلی میں منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی کثرت رائے سے منظوری کے بعد موبائل فون سمیت سبھی خدمات کے شعبوں پر ودہولڈنگ ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ”منی بجٹ“ سے حکومت کو محصولات (ٹیکسوں) میں اضافی 343 ارب روپے آمدنی حاصل ہو گی۔ مہنگائی کے ”جان لیوا اثرات“ کم کرنے کے لئے آمدنی کے لحاظ سے متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے لئے یقینا یہ وقت گہری سوچ بچار کا ہے کہ ہر کوئی اپنے ’ضروری‘ اُور ’غیرضروری اخراجات‘ کو فہرست کرے اور ایسی تمام سہولیات سے کنارہ کش ہو جائے جن کی وجہ سے اُس پر محصولات کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ یقینا قومی فیصلہ ساز اِس سوچ بچار میں ہوں کہ کس طرح قومی سطح پر خودکفالت اور خودانحصاری کو فروغ دیا جائے کیونکہ معاشی عدم استحکام قومی سلامتی اُور ملکی دفاع جیسی اہم ترین ضرورت کو بھی چھو رہا ہے۔