مہنگائی کی بنیادی وجہ

حکومت نے عوام کو مہنگائی سے ریلیف پہنچانے کے لئے صحت کارڈپلس کا انقلابی منصوبہ شروع کیاہے۔جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس  کا سب سے زیادہ فائدہ سفید پوش اور مڈل کلاس طبقے کو ہوگا، امیر لوگ تو بیرون ملک جاکر اپنا علاج کرواتے ہیں،غریب اور متوسط طبقے کے لوگ بیمار پڑنے پر اپنا علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔اب ہر خاندان ملک کے کسی بھی سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال سے اپنا بہترین علاج کرواسکتا ہے۔اور علاج پر اٹھنے والے دس لاکھ تک کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ دیکھا جائے تو اس وقت  سب سے زیادہ مشکل تنخواہ دار طبقے کو درپیش ہے جس کی تنخواہ مہنگائی کے تناسب سے نہیں بڑھتی اور یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی شخص کی آمدنی کم ہوگی اور اخراجات بدستور رہیں گے تو اسے چیزوں کی قیمت اپنی قوت خرید سے باہر محسوس ہو گی۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف لوگوں کی آمدن کم ہوئی ہے دوسری جانب اشیائے ضروریہ کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جارہی ہیں۔اگر چہ اس میں بین الاقوامی سطح پر ایندھن کی قیمتیں بڑھنے کاکردار بھی ہے‘گذشتہ سال جون میں بجٹ پیش کئے جانے کے بعد سے اب تک سات مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں گیارہ مرتبہ، بجلی کی قیمتوں میں چھ اور گیس کی قیمتوں میں چار مرتبہ اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک لٹر پٹرول پر حکومت نے تقریباً32روپے کے ٹیکس لگادیئے ہیں جنہیں جنرل سیلز ٹیکس، ڈسٹری بیوٹر مارجن، آئی ایف ای ایم، ڈیلر مارجن اور محصولات کا نام دیا گیا ہے۔ تیل مہنگا ہونے سے کرائے بڑھ جاتے ہیں جب کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اسے ہر چیز کے دام بڑھانے کا جواز بنایاجاتا ہے۔ تین سال قبل معیاری کوکنگ آئل کی قیمت 145روپے فی کلو تھی آج وہی کوکنگ آئل 418روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ جاگیر داروں، کارخانے داروں اور سرمایہ داروں کے سوا کسی کی آمدنی میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوا۔ نجی اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بجائے مزید کمی کردی گئی اور اخراجات بچانے کے لئے آدھے ملازمین کو فارغ کردیاگیا۔ کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر ملکوں میں بھی مہنگائی بڑھ گئی ہے۔تاہم وہاں پر ذرائع آمدن کہیں زیادہ ہیں اور ان لوگوں کے پاس مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی طاقت بھی زیادہ ہے۔ اگر مہنگائی کے ساتھ ساتھ ذرائع آمدن میں اضافہ ہو اور اسی مناسبت سے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہو تو پھر بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ایسے حالات میں کہ جب دوبارہ کورونا کے باعث مختلف قسم کی پابندیوں کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں معاشی مشکلات کا شکار عام آدمی یقینا ریلیف کا منتظر ہے۔حکومت اگر کسی طرح ادھر ادھر کے اخراجات کو کم کرکے عام آدمی کو کھانے پینے کی اشیاء پر سبسڈی دے اور ان کی مشکلات کو کم کرنے پر توجہ دے تو یہ بلاشبہ وقت کا تقاضا بھی  ہے اور خود حکومت کیلئے آنے والے انتخابات کی کی تیاری کیلئے اہم بھی۔