پانچویں لہر: ہر شخص جو ’حساس‘ ہے رنجیدہ بہت ہے

قومی سطح پر فیصلہ سازوں کیلئے یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ پاکستان میں کورونا وبا کی مختلف اقسام (کووڈ 19‘ ڈیلٹا اور اُومیکرون) سے متاثرہ افراد میں یومیہ پانچ ہزار سے زائد مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے لیکن عوام کی اکثریت صورتحال کی نزاکت کا احساس نہیں کر رہی اور بار بار یاد دہانی کے باوجود کورونا وبا سے ممکنہ طور پر بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر (ایس اُو پیز) پر عمل درآمد سے گریز کئے ہوئے ہیں اُور ایسا بھی نہیں کہ ملک کے چاروں صوبوں میں اکثریت کورونا وبا سے لاعلم ہونے کے باعث ’ایس او پیز‘ پر عمل درآمد نہیں کر رہی جبکہ اگر صرف دو احتیاطی تدابیر ہی پر عمل کر لیا جائے تو بھی بات بن سکتی ہے جیسا کہ گھر سے باہر جاتے وقت ماسک (mask) پہنا جائے اور پرہجوم مقامات یا اجتماعات میں شرکت سے اجتناب کیا جائے۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے (اُنیس دسمبر) کے روز سترہ اضلاع جبکہ دوسرے مرحلے کے باقی ماندہ اضلاع کے لئے ’پولنگ ڈے‘ ستائیس مارچ دوہزاربائیس رکھا گیا ہے۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے سولہ جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی تھی لیکن کورونا وبا کی وجہ سے نہیں بلکہ بالائی علاقوں میں خراب موسم کی وجہ سے انتخابات کی تاریخ کو آگے بڑھایا گیا ہے حالانکہ کے موسم سے زیادہ خطرہ ایک ایسی وبا سے ہے‘ جس سے شہروں کی نسبت دیہی‘ بالائی اُور مضافاتی علاقوں کے رہنے والوں کو زیادہ خطرہ ہے کیونکہ ایک تو اُنہوں نے کورونا ویکسی نیشن کلی یا جزوی طور پر مکمل نہیں کروائی اُور دوسرا صحت کی سہولیات شہری آبادی سے زمینی فاصلے بڑھتے ہوئے کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے سبھی اضلاع سے مریضوں کو پشاور کے تین بڑے ہسپتال میں لایا جاتا ہے۔ صحت کا نظام آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُور ضلعی سطح پر جس تناسب سے وسیع ہونا چاہئے اُتنا معیاری نہیں ہے۔ اُمید تھی کہ کورونا وبا کے پہلے دور (فروری دوہزاربیس) سے سبق سیکھتے ہوئے حکومتی ترجیحات پر نظرثانی کی جائے گی اُور صحت و تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل میں خاطرخواہ اضافہ کیا جائے گا تاکہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔کورونا وبا کتنا بڑا خطرہ ہے اور اِس حوالے سے دنیا میں کیا ہو رہا ہے یہ جاننے کے لئے تین ممالک میں جاری تحقیقات سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے جہاں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ویکسین کی چار خوراکیں لگانے والے بھی کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے متاثر ہوئے ہیں۔ اسرائیل میں ہوئی طبی تحقیق کے حتمی نتائج ابھی جاری نہیں ہوئے مگر اس میں شامل ماہرین سے بات چیت پر مبنی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ویکسین (موڈرنا یا فائزر) کی اضافی یا چوتھی خوراک سے کچھ اثرات تو مرتب ہوتے ہیں مگر رضاکاروں میں بیماری کی شرح میں تین خوراکیں استعمال کرنے والے افراد سے زیادہ فرق نہیں تھا۔ محققین نے بتایا ہے کہ کووڈ ویکسینز کورونا کی اقسام ایلفا اور ڈیلٹا کے خلاف تو زبردست تھیں مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون کے مقابلے میں وہ اتنی زیادہ اچھی نہیں۔ ابھی تک اس تحقیق کا ڈیٹا جاری نہیں ہوا اور محققین نے نتائج کو ابتدائی قرار دیا مگر ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی نتائج کو عوامی مفاد کے لئے جاری کیا جارہا ہے۔ نتائج سے دیگر سائنسدانوں کے ان خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ اومیکرون کے لئے کووڈ ویکسینز کے نئے ورژن کو تیار کرنے کی ضرورت ہے اُور مختلف کمپنیوں کی جانب سے اس حوالے سے کام کیا جارہا ہے۔ مذکورہ تحقیق کا آغاز دسمبر دوہزاراکیس میں ہوا تھا اور ایک سو چوون افراد کو فائزر جبکہ ایک سو بیس کو موڈرنا ویکسین کا بوسٹر ڈوز استعمال کرایا گیا۔ تحقیق کے مطابق جن افراد کو ویکسین کی چوتھی خوراک استعمال کرائی گئی تو اینٹی باڈیز میں اضافہ ہوگیا مگر یہ بھی دیکھا گیا کہ جن افراد کو چوتھی خوراک دی گئی ان میں سے متعدد اومیکرون سے بیمار ہوئے اگرچہ یہ تعداد کنٹرول گروپ سے معمولی حد تک کم تھی مگر پھر بھی کیسز بہت زیادہ تھے۔ کسی طبی تحقیق میں کنٹرول گروپ سے مراد وہ افراد ہوتے ہیں جن کو ایک خاص حد تک ادویات دی جاتی ہیں اُور موجودہ تحقیق میں کنٹرول گروپ کے لوگوں کو فائزر ویکسین کی تین خوراکیں استعمال کرائی گئی تھیں۔ ذہن نشین رہے کہ ویکسینز سے بیماری کی سنگین شدت اور ہسپتال میں داخلے کے خطرے سے تحفظ ملتا ہے۔ اس سے قبل جنوری دوہزاربائیس کے آغاز میں امریکہ میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ اومیکرون کے خلاف مدافعت کے لئے ویکسین کی تیسری خوراک لازمی ہے جس کے بغیر بیماری سے بچنا مشکل ہوگا۔ ریگن انسٹیٹوٹ آف ایم جی ایچ‘ ایم آئی ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ اومیکرون کے خلاف لوگوں میں مدافعت پیدا کرنے کے لئے موڈرنا یا فائزر ویکسین کی اضافی خوراک کی ضرورت ہوگی۔ تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ کورونا وبا کی دو خوراکوں سے اتنی اینٹی باڈیز نہیں بن پاتیں جو اومیکرون کو شناخت اور ناکارہ بنانے کے لئے درکار ہوتی ہیں۔ محققین نے اومیکرون کا ایک بے ضرر ورژن تیار کیا تاکہ تین کورونا ویکسینز (فائزر‘ موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن) کی جانچ پڑتال کی جاسکے۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسین کی دو خوراکیں اومیکرون قسم کو ناکارہ بنانے کے حوالے سے بہت کم مؤثر ثابت ہوئیں حالانکہ ایسے افراد کے نمونے بھی تحقیق کا حصہ تھے جن کی ویکسی نیشن حال ہی میں ہوئی تھی۔ تحقیق سے واضح نہیں کہ ”بوسٹر ڈوز“ سے اومیکرون کے خلاف مدافعتی تحفظ میں ڈرامائی بہتری کیوں آتی ہے مگر محققین کے خیال میں اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ویکسین کی اضافی خوراک سے بننے والی اینٹی باڈیز زیادہ سختی سے اسپائیک پروٹین کو جکڑتی ہیں، جس سے ویکسین کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ تیسری تحقیق (جنوبی افریقہ) کے بعد کہا گیا ہے کہ اومیکرون کیسز کی شدید لہر مستقبل قریب میں کورونا وائرس کی وبا کے خاتمے کا راستہ کھول سکے گی کیونکہ اس سے ہونے والی بیماری کی شدت پہلے کے مقابلے میں کم اور ڈیلٹا سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔لیبارٹری تحقیق میں نومبر اور دسمبر دوہزاراکیس کے دوران اومیکرون قسم سے متاثر افراد کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی اُور دریافت ہوا کہ جو لوگ ماضی میں ڈیلٹا قسم سے بیمار ہوچکے ہیں‘ وہ اومیکرون کا ہدف بن سکتے ہیں مگر اومیکرون سے متاثر افراد ڈیلٹا سے بیمار نہیں ہوسکتے۔ اِس منظرنامے میں جہاں دنیا پریشان دکھائی دیتی ہے وہیں پاکستان میں کورونا وبا کے حوالے سے افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ تازہ ترین (بدنما) مثال سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر تعلیمی ادارے بند کرنے کی افواہ دی گئی ہے‘ جس کا نوٹس لیتے ہوئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی اُو سی) نے ملک بھر میں تمام پرائمری سکولوں کی بندش سے متعلق زیر گردش خبر کو جعلی قرار دیا ہے اُور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو مذکورہ افواہ پھیلانے والے اکاؤنٹ کے خلاف کاروائی کا کہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں کورونا وبا کی ”پانچویں لہر“ جاری ہے جس کے بڑھتی ہوئی شدت کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند کرنے سے متعلق فیصلہ آئندہ بین الصوبائی وزرأ اجلاس تک مؤخر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کی بندش سے متعلق فیصلہ وبا کی مثبت شرح (پھیلنے) کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ کورونا وبا کے بارے میں خاطرخواہ سنجیدگی‘ حساسیت اور احساسیت کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا‘ جس سے ایک ایسا ماحول تشکیل پائے جس میں معاشرے کا ہر فرد ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو اُور دوسروں کو بھی وبا سے محفوظ رکھنے کو ضروری سمجھے۔ صرف یہی ایک صورت (احتیاط سے زیادہ احتیاط) کاروباری‘ سماجی‘ سیاسی اُورتعلیمی معمولات جاری رہنے کی ضمانت بن سکتے ہیں۔